وہ محبت کے جو گی ہیں ۔ محمد خان داؤد

263

وہ محبت کے جو گی ہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کیا دھرتی مقدس ہیں؟
یہ ایسا سوال ہے جس سوال کا جواب دھرتی ماں کے حلالی فرزندوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں
ان کا تو ایسے بے ہودہ سوالوں پر یہی جواب ہوتا ہے کہ
“اول دھرتی
آخر دھرتی
دھرتی زندہ باد”

وہ دھرتی سے ماں اور محبوبہ جیسی محبت کرتے ہیں، پر جب دھرتی کی بات عشق سے بھی آگے تک پہنچ جاتی ہے تو ان عاشقوں کی مائیں اور محبوبائیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں اور دھرتی ان کے من میں سما جاتی ہے پھر یا تو وہ ہاتھوں میں بندوق لیے دھرتی کے لیے لڑتے ہیں یا شہید ہوکر اسی دھرتی میں سما جاتے ہیں اور دھرتی اور دھرتی کے پتھر ان شہیدوں کے لیے اشک بار رہتے ہیں! ان کے گھائل جسدِ خاکی امانتاً پتھروں کے نیچے جب تک دفنا دیے جاتے ہیں جب تک دھرتی آزادی نہیں ہوتی اور وہ تمام تر اعزاز کے ساتھ دھرتی میں ایسے نہیں سما جاتے جیسے مانگ میں سندور!

وہ شہید پوری کی پوری دھرتی ہیں
وہ دھرتی کا نور ہیں
وہ دھرتی پر عشق کا جلتا دئیا ہیں
وہ دھرتی کا سندور ہیں
وہ دھرتی سے وفا کا وعدہ ہیں
وہ دھرتی کی باغی بولی ہیں
وہ دھرتی کے ایسے پھول ہیں جو ایک بات کھلِ جائیں تو کبھی نہیں مر جھاتے!
وہ دھرتی کے دل کی دھڑکن ہیں
وہ دھڑکن ٹہر جائے تو دھرتی مر جائے
وہ دھرتی کو مرنے نہیں دیتے اس لیے وہ تو شہید ہو جاتے ہیں پر اپنی موت سے دھرتی کو سر خرو کر جاتے ہیں
وہ دھرتی پر محبت کا جلتا دیپ ہیں
وہ سویرا ہیں، وہ شام ہیں وہ محبت بھری رات ہیں!

محبت ان کا پاسہ لیتی ہے، ان کے پاس آتی ہے ان پر فدا ہوتی ہے پر وہ محبت سے اپنا دامن چھڑا کر دھرتی کے دامن تھام لیتے ہیں، اسی دھرتی کے دامن کو کبھی پرچم بنا لیتے ہیں اور کبھی کفن!

وہ وطن کے پرچم اور کفن کے درمیان رہتے ہیں
وہ دھرتی کا وچن ہیں
ایسا وچن جس وچن پر دھرتی جھومتی ہے اور وہ دھرتی کو جھومتا دیکھ کر ایسے مسکراتے ہیں جیسے
یسوع مریم کو دیکھ کر مسکرائے
وہ مریم کے یسوع نہیں
وہ دھرتی کے یسوع ہیں

وہ مصلوب بھی ہوتے ہیں مارے بھی جاتے ہیں آروں سے چیرے بھی جاتے ہیں ان کے نفیس جسموں میں گولیاں بھی پیوست ہوتی ہیں وہ بارود سے بھی اُڑائے جاتے ہیں پھر بھی وہ دھرتی سے ایسے جُڑے رہتے ہیں
جیسے
دیا اور لوُ
جیسے رنگ اور دھنک
جیسے ساز اور آواز
جیسے مندر اور بجھن!
وہ کارونجھر کی کور کے مور ہیں جو دھرتی پر اپنے پر پھیلاتے ہیں اور ناچتے ہیں
ناچتے ہیں اور بہت روتے ہیں روتے روتے پھر ناچتے ہیں
وہ دھرتی کے صوفی ہیں
وہ محبت کے جوگی ہیں
ازلی جوگی

اگر انہیں دھرتی سے محبت نہ ہوتی تو وہ گھروں میں رہتے سروں پر کفن باندھ کر ان راہوں میں نہ چلتے جن راہوں میں موت جانے سے بھی کتراتی ہے اور وہ تو ان راہوں کے باسی ہیں
وہ اپنے لہو سے دھرتی پر گلاب سینچتے ہیں
اور وہ گلاب اور سرخ اور سرخ اور سرخ اور سرخ اور سرخ ہو جاتے ہیں
ان سرخ گلابوں سے دھرتی دلہن کی طرح خوشبو سے بھر جاتی ہے
اور ان کے لبوں پر ایسی الفاظ مچلنے لگتے ہیں کہ
”سیندھ تنھنجی کڈھن میری نہ تھئیے
پھول تنھنجا کڈھن نہ مر جھائیجن “
”اے دھرتی ماں! تمہاری مانگ کبھی میلی نہ ہو
اور اس مانگ کے پھول کبھی نہ مر جھائیں!“
وہ محبت کے مچھلی نہیں
وہ محبت کے ندی ہیں

جس ندی میں دھرتی زندہ رہتی ہے اگر وہ نہ ہوں تو دھرتی ایک دن بھی زندہ نہ رہے وہ اپنی جان دے کر دھرتی کو زندگی دیتے ہیں
وہ دھرتی کے وفادار ہیں
وہ دھرتی کے اندھیروں کو اپنے لہو کی جلا سی روشن کرتے ہیں
وہ آزادی کا پہلا اور آخری تارہ ہیں
انہیں دیکھ کر آزادی کا سورج طلوع ہوگا
وہ نہ ہوں تو آکاش اداس اداس ہو جائے!
محبت مقدس ہے پر دھرتی اس سے بھی بڑھ کر مقدس ہے
اگر دھرتی مقدس نہ ہوتی تو وہ پہاڑوں پر یخ راتوں اور تپتے دنوں میں آزادی کے خواب نہ بنتے
پر گاؤں کی گلیوں میں گوریوں اور سانویلوں کے پستانوں کے بوسے لیتے
گال چومتے، بال سنوارتے اور محبت میں پسینہ بہاتے
پر وہ جانتے ہیں دھرتی مقدس ہے
وہ محبت کے تمام رنگ چھوڑ کر دھرتی کی دھول قبول کرتے ہیں
وہ محبت کے دھنک رنگ چھوڑ کر
دھرتی کی دھول کے رنگ قبول کرتے ہیں
اور دھرتی کی محبت میں نہا جاتے ہیں
وہ ان سروں کو سمجھ گئے ہیں کہ
“اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد!“
جب وہ دھرتی کی محبت میں لہو لہو ہوکر دھرتی میں دفن ہو تے ہیں
تو تمام کتابوں کے الفاظ ماتم کرتے ہیں علم اپنے بالوں میں دھول ڈالتا نظر آتا ہے
اور عشق آگے آگے ناچتا نظر آتا ہے
کیوں کہ وہ علم کے نہیں عشق کے شہید ہو تے ہیں
وہ دھرتی اور آزادی کے خواب ہیں
وہ مقدس ہیں
مٹی
اور دھرتی کی طرح
جب وہ پہاڑوں کی اُوٹ میں شہید ہو تے ہیں
تو ان کی آنکھوں میں ایسی تحریریں رہ جا تی ہیں کہ
”اے شب کے پہریدارو!
صبح جب دن چڑھے تو
میرے خوابوں کو
سورج سے ناپنا “
کیا اب بھی دھرتی مقدس نہیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں