وہ جو دھرتی کا وچن بن کر لوٹ رہی ہے! محمد خان داؤد

222

وہ جو دھرتی کا وچن بن کر لوٹ رہی ہے!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ بلوچستان کی کونج ہے، اور اس کی آواز ہر سو گونج رہی ہے
ایسی کونج اور ایسی گونج جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ ”گونج بہ کائی کونج پریان ء جی!“
وہ نئی امید نئی سحر ہے۔ وہ طلوع ہوتا سورج ہے جو غروب ہونے کے لیے نہیں طلوع ہونے کے لیے ابھر رہا ہے دھرتی کے اس کونے سے جس کونے پر اندھیرے کا راج رہا ہے۔
وہ پہلی صدا ہے، گونجتی صدا
وہ آزاد ی پسندوں کا نعرہ ہے جو عشق و محبت سے لگاتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر چاند کو چھو آتے ہیں کہ
”اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد!“

وہ دھرتی کی خوشبو ہے۔ اس میں آزادی کے تمام رنگ ہیں، وہ آزادی کی تتلی ہے۔ اسے کتاب اور بندوق سے محبت ہے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اسے بندوق سے زیا دہ محبت ہے یا کتاب سے؟ بندوق اور کتاب دونوں اسے اپنی اور کھینچتے ہیں اس لیے اس کی باتیں بارود جیسی ہیں۔ وہ پہاڑوں پر پڑے پتھروں پر وہ مختصر تحریر ہے جسے آزادی پسند لکھتے ہیں اور آزادی پسند ہی پڑھتے ہیں، جس میں آزادی پسند ہی رنگ بھرتے ہیں رنگ بھی اپنے لہو کا رنگ اور وہ تحریر لہو لہو ہو جا تی ہے! وہ جو دھنک رنگ ہے، وہ جو بارش جیسی ہے، وہ جو قوس و قزا ہے، وہ و سویرہ ہے وہ جو شام ہے وہ جو نما شام ہے وہ و دھرتی ہے، وہ جو دھرتی کی محبت ہے وہ جو تمام شہیدوں کی وارث ہے، وہ جو شہید کی بیٹی ہے!
وہ جو لطیف کا رہ جانے والا سُر ہے۔ وہ جو دیس کی محبت میں لکھی نظم ہے۔ وہ جو آزاد نظم ہے اپنی باتوں میں اپنے انداز میں۔ وہ جو لطیف کی وائی ہے جسے جب جب فقیروں نے گایا ہے لطیف بہت رویا ہے۔
وہ دھرتی اور محبت کا عجیب سنگم ہے
وہ دھرتی کی محبت اور محبت بھری دھرتی ہے
ایسی دھرتی جس کے سینے میں درد کا جنم ہوتا ہے
اور وہ ایک نعرہ بن جاتی ہے ایک چیخ بن جاتی ہے

لطیف جب بھی لوٹے گا اپنے رسالو کو نئے سرے سے ترتیب دے گا تو اس سُر کو ضرور شامل کرے گا جو بلوچ دھرتی کا سُر ہے، جو جدوجہد کا سُر ہے، جو آزادی کی نغمگی ہے جسے آزادی پسند محبت و احترام سے گاتے ہیں اور پہاڑ اداس ہو جاتے ہیں۔ وہ دیس کی ہواؤں میں گھُل مِل جاتی ہے اور ہوائیں کہاں جا تی ہیں؟ یہ تو دھرتی جانے یا ہوائیں، پر جب جب یہ ہوائیں دھرتی پر مٹتی اداس قبروں سے ٹکرا تی ہیں تو ان قبروں میں سوئے شہید اُٹھ کر پوچھتے ہیں کہ
”کیا دیس کی گلیاں آزاد ہو گئیں؟!“
اور پھر کر وٹ لے کر سو جاتے ہیں حساب کے دن تک!
وہ جو تمر فقیر ہے۔ جو دردیلی ماؤں کی آنسوؤں سے تر پوتیاں اُٹھاتی ہے اور ماؤں کے آنسو پونچھتی ہے

وہ جو دیس کے پرچم جیسی ہے۔ وہ جو نوحہ گر ہے۔ وہ جو رفو گر ہے جس نے کوشش کی ہے کہ وہ دیس کے دردوں کی رفو گیری کرے، درد سی اے!
وہ جو دھرتی کی محبت میں فقیر بنی ہے۔ وہ جو وطن میں بے وطن رہی ہے۔
وہ جو دھرتی کا وچن بن کر لوٹ رہی ہے
ایسا وچن جسے وطن اپنے سے دور نہیں کرتا
وہ وطن کی کونج ہے اور وطن کو لوٹ رہی ہے
اور وطن کی گلیاں خوشبو سے بھر گئی ہیں!
بارشیں آکاش میں بھر آئی ہیں، تتلیوں کے پروں پر رنگ کھل آئے ہیں، پھول اور سُرخ ہو رہے ہیں ان پھولوں پر شبنم ٹھہر سی گئی ہے، چاند اور پہاڑوں کے قریب آ رہا ہے چاندنی میں ندیاں مچل رہی ہیں
دیس کی ہوائیں سُرخ رو ہو رہی ہیں انقلاب در پر دستک دے رہا ہے
اور کونج دیس کو لوٹ رہی ہے۔
یہ محبت کا نیا جنم ہے۔ وہ محبت جو دیس سے دور چلی گئی تھی
اور اب تمپ میں امانتاً سو رہی ہے
جب دیس کی گلیاں آزادی کی خوشبو سے بھر جائیں گی تو
پہاڑوں پر بس آزادی کا چاند چمکے گا
سورج محبت کا طلوع ہوگا
اور سرمچار کے کاندھوں پر بندوق نہیں
پر محبت میں پیدا کیے بچے سوار ہونگے
تو ہم اسے اعزاز کے ساتھ آزاد دیس میں سُلا دیں گے
وہ محبت جو تمپ میں سو رہی ہے
وہ محبت ڈاکٹر ماہ رنگ کے روپ میں لوٹ رہی ہے
”گونج بہ کائی کونج پریان ء جی!“
ہاں ہاں ہاں!
وہ دھرتی کی کونج ہی تو ہے
جو دھرتی کو لوٹ رہی ہے!

جس دھرتی کی بیٹی کو دیکھ کر ہواؤں میں اُڑتے پنکھ۔دیس کے دیش بھگت بیٹے۔اور شہید سرمچار ایسے الفاظوں میں خراج پیش کرتے ہیں کہ
”مر بھی جائیں یار گر
پر صحبت زندہ رہے گی
اور تجھ سے
یہ محبت زندہ رہے گی!“
دیس ایک محبت بھری منزل ہے اور اسے محبت اور منزل کا پتا ہے
اس لیے وہ اپنی باتوں میں اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ
”اب بلوچ جھوٹے وعدوں پراعتبار نہیں کریں گے پر بلوچ کا وہی راستہ ہے جو خیر بخش مری کا راستہ ہے!“
وہ وطن جیسی
وطن کی گلیوں جیسی
وطن کی شام جیسی
وطن کی صبح جیسی
دعا جیسی
گیتوں جیسی
آزادی جیسی
نغمگی جیسی
مقدس صحیفوں جیسی
عبادت میں گائی نظموں جیسی
رنگوں جیسی
پہاڑوں کی چوٹیوں پر
پڑے پتھروں پر لکھے نام جیسی
”ماہ رنگ بلوچ!“
دھرتی کا وچن بن کر لوٹ رہی ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں