بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4633 ویں روز جاری رہا –
اس موقع 22 نومبر 2013 کو سریاب کوئٹہ سے جبری لاپتہ سیف اللہ رودینی ولد داد خدا کی ہمشیرہ فرزانہ رودینی اور دیگر لواحقین نے تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ساتھ کیمپ میں بیٹھے رہیں-
لاپتہ سیف اللہ رودینی کی ہمیشرہ فرزانہ نے اپنے بھائی کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ آٹھ سالوں سے طویل جبری لاپتہ ہے – انہوں نے کہا کہ ہم اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں – پورے خاندان کو سزا دی جارہی ہے –
انہوں نے کہا کہ 8 سال میں اسے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے – اب بھی ہم یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں ملکی عدالتوں میں پیش کیا جائے –
جبکہ بلوچستان کے علاقے ژوب سے سیاسی اور سماجی کارکنان کریم خان کاکڑ، عبدالمنان ترین اور دیگر کیمپ میں آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی –
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پشتون، سندھی اور تمام جبری لاپتہ لوگوں کے لواحقین مشترکہ طور پر اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے اس پر امن جدوجہد کا حصہ بنیں، اس کارواں میں شامل ہو کر اس میں شدت لائیں، ہم ایک دن سامراج اور اسکے گماشتوں کا احتساب لے کر رہیں گے-
انہوں نے کہا کہ ریاستی مشینری ہمارے پر امن جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہمیشہ متحرک ہیں، لوگوں کے ہر امن جدوجہد کو اہمیت نا دینے سے لوگوں میں اس ریاست کے خلاف مزید غم و غصہ پیدا ہو جاتا ہے-