کتاب: نوری نصیر خان ۔ شہک بلوچ

1285

کتاب: نوری نصیر خان

مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

رویو: شہک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فاروق بلوچ نے یہ کتاب خانِ اعظم میر نوری نصیر خان پر لکھی ہ۔ نوری نصیر خان وہ شخص ہیں جنہوں بلوچستان کو ایک الگ پہچان دیا جنہوں نے بلوچوں کو انک جغرافیائی حدبندی طے کرکے دی انکا ایک مشہور فقرہ ہے کہ “میں نے بلوچوں کو اتنی جگہ آزاد کر کے دی ہے کہ ایک چرواہا بلوچستان کے کسی پہاڑ ہر بیٹھ کر آرام سے آزادی کے نعرے لگا سکے”
میر نصیر خان میر عبد اللہ خان کا چھوٹا بیٹا میر محبت خان کا سوتیلا اور میر اہلتاز خان کا سگا بھائی تھا۔ میر عبداللہ خان نے بلوچوں کے لیے جو خدمات سرانجام دی وہ بہت زیادہ ہیں ان میں سے ایک یہ کہ ڈیرہ جات کے علاقے کو بلوچستان میں شامل کرنا ہے جو بعد میں انکے بیٹے میر محبت خان کی غلطیوں کی وجہ سے نادر شاہ کے زیر حکومت چلی گئی۔
میر عبداللہ خان کے وفات کے بعد انکے بڑے بیٹے میر محبت خان خان آف قلات منتخب ہوتے ہیں وہ سردار ہوتے ہیں اپنا رویہ باقی قبائلی سرداروں سے برا رکھتے ہیں جبکہ نوری نصیر خان اور اسکے والدہ کو مستونگ بدر کرتے ہیں کچھ عرصے اسکے کوتاہیوں کو برداشت کرنے کے بعد قبائلی سردار بھی اس سے دلبراشتہ ہو جاتے ہیں اور انکو گرانے کی تیاریاں زور پکڑ جاتی ہیں ایک دن انکو قلات ہی سے خان کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے اور میر اہلتاز خان کو نیا خان منتخب کیا جاتا ہے میر محبت خان کے دور میں بلوچ تاریخ تنزلی کی طرف جاتی رہی اور بلوچ جغرافیہ ڈیرہ جات سے محروم ہوگیا اسکے بعد جب میر اہلتاز خان شروع شروع میں آتے ہیں تو انکا رویہ کچھ صحیح ہوتا ہے لیکن زیادہ دیر تک وہ قبائلی سرداروں اور بلوچ باشندوں کے نظریات پر عمل کرنے والے نہیں رہتا اور اپنی عیاشی شروع کر دیتا ہے اب بلوچ قبائلی سردار اسے بھی خان کے عہدے سے ہٹانے ہر تیار ہو جاتے ہیں اور نادر شاہ جوکہ بلوچستان میں اپنے آدمی مقرر کیے ہوتا ہے اور خان آف قلات کے منتخب کرنے میں بھی انکا ایک بڑا رول ہوتا ہے وہ میر اہلتاز خان کو بلاتے ہیں انہیں قید کرتے ہی انکی جگہ میر محبت خان کو دوبارہ خان آف قلات منتخب کرتے ہیں اسی دوران میر محبت خان نے نوری نصیر خان اور اسکی والدہ کو بھی قندھار روانہ کیا اور انہیں قید کروایا تاکہ کوئی میرے خلاف سازش نہ کرے یہ 1736 کا واقعہ ہے اس دوران نوری نصیر خان قید و بند میں رہا اور جب 1747 میں نادر شاہ کو قتل کیا جاتا ہے تو نوری نصیر خان بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بلوچستان چلے آتے ہیں اور ایک دوست کے ہاتھوں اپنی والدہ کو بھی بلوا لیتے ہیں اب افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کی حکومت آچکی ہوتی ہے اور احمد شاہ ابدالی نوری نصیر خان کے قریبی دوست ہوتے ہیں جو نادر شاہ کے زمانے میں ایک ساتھ رہ چکے ہوتے ہیں۔ میر محبت خان کے احمد شاہ ابدالی سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور میر نوری نصیر خان خان آف قلات بن جاتے ہیں یہ 1747 ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں نصیر خان نوری کے مختلف خدمات بنامِ بلوچ قوم
سرحدوں کی حد بندی:

نصیر خان نوری نے دوران حکومت بلوچستان کے سرحدوں کی حد بندی مختلف جنگووں میں تاریخ رقم کر کے کی، ڈیرہ جات انکو اعزاز کے طور پر ملے جب انہوں نے پنجاب کے مہمات میں اپنے جنگی جوہر دکھا کر احمد شاہ ابدالی کو فتح سے ہمکنار کرایا۔ سندھ کے علاقے اس نے اپنے زور بازو سے حاصل کیے اور انہیں بلوچستان کا حصہ بنایا جن میں نصیرآباد جیکب آباد قابل ذکر ہیں، سبی کوئٹہ جن کو افغانستان اپنی جاگیر سمجھتا تھا وہ علاقے بھی نوری نصیر خان بلوچستان کے نقشے میں لے آئے یعنی سندھ سے لیکر مکران، مکران سے لیکر کوہ سلیمان اور کوہ سلیمان سے لیکر ایران تک کا علاقہ بلوچستان بنا۔ اس دوران آپ کہتے ہیں جہاں تک بلوچی بولی جاتی ہے وہاں تک بلوچستان ہے۔
بلوچستان کی باقاعدہ آزادی کا اعلان:
نوری نصیر خان سے پہلے جتنے بھی خان چلے آرہے تھے ان کے حکومت کے دوران بلوچستان کا جو علاقہ تھا وہ باقاعدہ آزاد نہیں تھا یہ تو کسی نہ کسی طریقے سے ایران کے زیر اثر تھا یا کسی اور طاقت کے لیکن نوری نصیر خان کے آنے سے 1758 میں افغانستان اور بلوچستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس معاہدے کو قلات کا نام دیا جاتا ہے جس کے رو سے بلوچستان کا علاقہ سندھ سے لے کر مکران اور مکران سے لے کر ڈیرہ جات کے علاقے اور افغانستان میں رہنے والے بلوچ آبادی کے علاقے خان کے ماتحت آتے تھے۔

معاہدہ قلات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

جب نوری نصیر خان خان آف قلات بنتے ہیں تو انکا مقصد بلوچستان کے سرحدوں کو یکجاہ کرنا ہوتا ہے اور وہ اس نیت سے کیچ اور پنجگور کے علاقوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں جہاں گچک اور بلیدئی حکومت کر رہے ہوتے ہیں لیکن کیچ سے ایک سردار احمد شاہ سے مدد کی درخواست کرتا ہے اس ہر وہ نوری نصیر خان کو کہتا ہے اپنا فوج واپس لے اور چلا جائے اب چونکہ احمد شاہ ابدالی نوری نصیر خان کا دوست بھی تھا اور قلات کے خان اسی کے کہنے پر تبدیل ہوتے رہتے تھے اس لیے نصیر خان واپس قلات آگئے لیکن اس معاملے پر افغانستان بلائے جانے پر بھی وہ نہیں گئے جس پر احمد شاہ ابدالی نے قلات پر قبضہ کا مہم شروع کیا اور دو تین مقامات پر بلوچوں کو شکست دینے کے بعد منگوچر کے مقام سے ہوتے ہوئے قلات پہنچا اور نوری نصیر خان کے فوج سے براہ راست مقابلہ کرنے لگا چالیس دن تک جنگ جاری رہی پھر انکے درمیان مذاکرات ہوئی جیسا کہ افغانستان کی فوج کو راشن جنگی سامان اور پنجاب میں ناکامیوں کا سامنا ہورہا تھا تو انہوں نے معاملے کو نمٹانے کے لیے معاہدہ کیا۔ ہنری پٹگر لکھتے ہیں کہ ایک دن احمد شاہ ابدالی اپنے کیمپ کے باہر نماز پڑھ رہے تھے کہ سجدہ کر کے اٹھے تھے سجدہ والی جگہ نوری نصیر خان نے نشانہ لگایا اور انکو یہ بات بتانا چاہی کہ میں آپکو مار سکتا تھا لیکن نہیں مارا، اس سے احمد شاہ ابدالی متاثر ہو کر جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے اور قلات کا معاہدہ ہوتا ہے۔

معاہدہ قلات کے نقاط:

اس معاہدے کے ذریعے یہ طے پایا کہ بلوچستان اپنے اندرونی معاملات میں آزاد ہوگا
بلوچستان افغانستان کو مشکل کے وقت مدد کرے گا اور اس پر معاوضہ وصول کرے گا۔
بلوچستان کے جو علاقے افغانستان سے منسلک کئے جاتے ہیں وہ بلوچستان کے ماتحت کئے جائیں گے یعنی سبی کوئٹہ وغیرہ۔
اس کے بعد نوری نصیر خان نے مکران کے ذگریوں کی نسل کشی کرتے ہوئے ان علاقوں کو آزاد کیا اور بلوچستان ایک مخصوص شکل میں تشکیل پا گئی نوری نصیر خان کے زیر حکومت بلوچستان کا رقبہ 340000 تھا۔
جن علاقوں کو آپ آزاد کرتے وہاں اپنے نائب منتخب کرکے وہاں سے ماہانہ ٹیکس لاتے اور قلات گورنمنٹ چلاتے اسکے علاوہ بحرونی ممالک سے تعلقات بننے میں بھی دیر نہ کی جس پر مکران کے ذریعے تجارت کروایا اور خام مال تجارت کی نوری نصیر خان کے دوران حکومت بلوچستان نے اندرونی اور بہرونی سطح پر خوب ترقی کی۔

کتاب کے بنیاد پر آپکے زندگی کا تنقیدی جائزہ:

اگر دیکھا جائے تو آپ نے بلوچستان کے نقشے کو جو تقویت بخشی وہ لاجواب ہے لیکن اس دوران آپ نے تھوڑی بہت غلطیاں کی جن میں پنجاب کے زمین کو اعزاز کے طور پر اٹھانے سے گریز کرنا ایک نمایاں غلطی ہے جب احمد شاہ ابدالی انہیں ملتان بھکر لیہ کے علاقوں کی پیشکش کرتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ بلوچستان کی سرحدیں وہاں تک ہوگی جہاں تک بلوچ آبادیاں ہیں ایک طرف تو یہ انکی قوم پرستی کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف اس زرخیز علاقے سے انکار کسی غلطی سے کم نہیں۔
ایک بات یہ کہ آپ نے اپنے دور میں فتوحات کرکے سرداروں کو خوب مال و دولت سے نوازا جب کہ بعد میں آنے والے خان ایسا نہ کر سکے اور قبائلی سردار دولت کے عادی ہونے کے باعث برطانیہ کے ہاتھوں جلد بک گئے۔
ذگریوں کے نسل کشی کے بارے میں لوگ آپ کو کہتے ہیں کہ آپ کٹر مسلمان تھے حالانکہ یہ غلط ہے آپ صرف بلوچ قوم کو متحد کرنا چاہتے تھے اور آج تک مکران انہیں قربانوں کے بدولت بلوچستان کے آزادی کی علامت بنا ہوا ہے اور بلوچ آزادی کےتحریکوں کی سر زمین ہے۔
نوری نصیر خان نے بلوچ اور بلوچستان کو یکجاہ کیا جس بنا پر شاہ محمد مری آپکو پیٹس اعظم کہتے ہیں۔ جبکہ نوری نصیر خان نے پانی پت کے جنگ میں احمد شاہ کے ساتھ مل کر جو جنگ کی اس بنیاد پر ترکی والے اس وقت آپکو ملت محمدیہ کے محافظ کا نام دیا کرتے تھے۔
نوری نصیر خان اس بات کے پیروکار تھے کہ جہاں تک بلوچ ہیں وہاں تک بلوچستان ہونا چاہیے اور آپ نے یہ کر کے دکھایا آپکی 47 سالہ اقتدار بلوچوں کےلیے ترقی اور خوشحالی کے دور تھا۔ 1794 میں آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اور بلوچ ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں