گلزار امام یا استاد اسلم؟
تحریر: نورین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
وطن یا کفن کے فلسفے پر عمل پیرا بلوچ سرمچاروں نے آج یہ واضح کردیا ہیں کہ وقت کے تقاضے یعنی قومی ضروریات کو سمجھ اور دیکھ کر ہم کسی بھی طرح کے قربانیاں دے سکتے ہیں۔ چند سال پہلے استارِ آزادی جرنل اسلم بلوچ نے آزادی کی راہ میں اپنا جوان سالہ لخت جگر “ورنا ریحان” کو قربان کر کے بلوچ قوم اور دنیا کے سامنے آزادی اور آزادی لینے کی قیمت کو واضح کیا۔ آزادی وہ واحد شئے ہیں جسے قربانیاں دیئے بغیر حاصل کرنا محض ایک خواب ہے۔ آزادی لینے کے لیے قابض کا خون چوسنا اور خود کا خون بہانا پڑھتا ہے، آج بلوچ قوم کا ہر بچہ اپنے قومی جنگ سے بلکل اور صحیح معنوں میں واقف ہے اور ہر بلوچ علم رکھتا ہے کہ جنگ مارنے اور مرنے کا نام ہے۔ آج ہر بلوچ کو اپنی جنگ سے محبت ہے کیونکہ بلوچ کی جنگ ایک امن اور ایک صبح روشن کے لیے ہو رہی ہے اسی صبح روشن کی خاطر آج بلوچ قومی تحریک میں لوگ جوق در جوق حصہ لے رہے ہیں۔
ویسے تو ہر بلوچ گوریلا یہ جانتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی دن انہی پہاڑوں، گلیوں، سڑکوں، گلی کوچوں یعنی میدانِ جنگ میں جام شہادت نوش کرینگے لیکن ان ابدالوں میں چند ایسے عاشق بھی ہیں جنہیں جگہ تک کا بھی پتا ہے کہ ہم فلاح جگہ جامِ شہادت نوش کرینگے۔ بقول سنگت کے گوریلوں اور فداٸیوں میں بس اتنا سا فرق ہیں کہ ایک گوریلا سمجھ سکتا ہے ہم کبھی بھی اور کسی بھی جگہ جامِ شہادت نوش کرسکتے ہیں لیکن ایک فداٸی کو یہاں تک کا بھی پتا ہوتا ہے کہ ہم فلاں جگہ جامِ شہادت نوش کرینگے یعنی فداٸین کا ایک مخصوص ہدف ہوتا ہے۔
استاد اسلم نے بلوچ قوم کو اپنے قومی ذمہ داریوں کا اتنا احساس دلایا ہے کہ آج ہر بلوچ اپنی قومی ذمہ داریاں سامنے رکھ کر آزادی کی خاطر فدا ہونے تک کو تیار ہے۔
2018 یعنی فداٸی ریحان کی شہادت سے پہلے بلوچ قومی جنگ میں یا سرفیس پے بیٹھے بلوچ عوام میں جو کمزوریاں تھیں اور 2018 یعنی فداٸی ریحان کا شہادت کے بعد بلوچ قومی جنگ میں جو تیزی آئی ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں، فداٸی ریحان اور استاد اسلم نے بلوچ قومی جنگ کو وہ روح بشخ دی ہے جس کے سبب آج 16 نوجوان دشمن کے اپنے ہیڈ کوارٹروں میں گُھس کر مسلسل 72 گھنٹوں تک بے خواب، بھوکے اور پیاسا لڑ کر دشمن کے 200 اہلکاروں کو مار کر اُسے ناکو چبوانے پر مجبور کردیا۔
فداٸی ریحان کے شہادت سے پہلے شہرت کے پیاسے چند بلوچ جہدکاروں کی سرینڈر ہونے کے بعد ہر محفل میں لوگ یہ طعنہ دیتے تھے کہ بلوچ قوم اب جنگ سے شکست کھاچکی ہے اب لوگ اپنی قومی بقاء کی خاطر مرنے سے زیادہ زندہ ہونے کو ترجيح دیتے ہیں لیکن استاد اسلم نے اپنا جوان سالہ لاڈلہ قربان کر کے ایسے احمق اور جھوٹے لوگوں کو سرمشار کردیا۔
رواں ماہ 2 فروری کو پنجگور میں ہونے والے فداٸی حملے میں بلوچ آزادی گوریلا کمانڈر گلزار امام بلوچ کا بھائی ناصر امام کا حصہ لینا بعد ازاں قوم پہ فدا ہونا استاد اسلم کا اپنا بیھٹے کو وطن پے قربان کرنے والی راہ اور فلسفہ سے محبت ہے۔
آج ہی سے چار سال قبل استاد اسلم نے فداٸی ریحان کو قربان کر کے چینی نوآبادکاروں کے ساتھ ساتھ سرفیس میں بھیٹے بے سما بلوچ نوجوانوں کو بتایا کہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں ہم ابھی تک زندہ ہے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں اور منزلِ آزادی تک لڑھتے رہینگے۔ ٹھیک اسی طرح 4 سال بعد یعنی رواں ماہ کو گلزار امام کا اپنے بھائی ناصر امام کو فدا کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ بلوچ قومی جنگ ایک شدت کے ساتھ جاری ہے اور استاد اسلم کا اپنے لختِ جگر کو قربان کرنے والا فلسفہ زندہ ہے۔
کہتے ہیں کہ حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جس کا رخصتی کے بعد اُس کے دیئے گئے سوچ، فکر اور فلسفہ پے لوگ عمل پیرا ہو۔ استاد اسلم 4 سال قبل اس جہاں سے رخصت ضرور ہوا لیکن اُس کی دی گئی قومی سوچ، فکر اور فلسفہ زندہ ہے۔ آج گلزار امام کی طرح ہر شعور رکھنے والے بلوچ فرزند میں استاد اسلم ایک مہر کے ساتھ زندہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ استاد اسلم ایک حقیقی لیڈر تھا۔
گلزار امام کو اگر ہم استاد اسلم کہیں تو کوئی شک نہیں ہوگا کیوںکہ بلوچ گلزمین کے لیے استاد اسلم کا جو مہر و وفا تھا وہ مہر و وفا گلزام کا بھی ہے اس مہر کی سبب گلزار امام نے اپنا جوان سالہ بھائی فداٸی ریحان کی طرح قربان کر دیا۔
آج ہر بلوچ والد و بھائی کو چاہیے کے وہ اپنے ڈغار و آزادی کہ لیے استاد اسلم و گلزار امام جتنا مہر رکھ کر اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کرے۔ استاد اسلم کے شہادت کے بعد جو لوگ افسوس کرتے یہ کہتے کہ ہمیں استاد اسلم کا مجلس و ملاقات کیوں نصیب نہیں ہوا وہ جاکر استاد اسلم سے گلزار امام کے دروشم میں مجلس و ملاقات کرے اور بہادری و ندری کا نصیحت لیں۔
گلزار بابا آپ کی سلامتی کے لیے دعائيں آپ کے لیے ہمارے دل مہر و محبت سے بھرے ہیں۔ گلزار بابا آپ اور آپ کا لاڈلے بھائی نے بلوچ قوم کے لیے استاد اسلم و فدائی ریحان کی طرح جو اقدام اُٹھایا ہے اُنکا پھل ضرور قوم کو ملے گا، گلزار بابا آپ کے قومی مہر کی سبب آج ہر بلوچ آپ کو استاد اسلم کی طرح راجی رہنماء تسلیم کرتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں