”لُٹا جو قافلہ وہ سب سے باوقار رہا! “ ۔ محمد خان داؤد

345

”لُٹا جو قافلہ وہ سب سے باوقار رہا! “

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ہم کتنے بے حس ہیں کہ ہم اس شاہراہ کو جانتے ہی نہیں جس شاہراہ پر درد کا قافلہ گزرتا ہے
ہم کتنے بے حس ہیں کہ ہم ان مسافروں کو جانتے ہی نہیں جو اپنے سروں پر درد کی پوٹلی لیے چلتے ہیں
ہم کتنے بے حس ہیں کہ نہ تو مسافروں سے واقف ہیں نہ اس سفر سے جو رائیگاں جا رہا ہے
نہ تو تر نینوں کو جانتے ہیں اور نہ دردیلے دل کو!
ہاں ہم واقف نہیں! ہم ان پیروں کو جانتے ہی نہیں جن پیروں نے دھرتی پر دکھوں کا سفر جھیلا اور دھول محبت میں آگے بڑھ کر ان کے قدموں سے چمٹ گئی!
دھول جانتی ہے کہ یہ پیر مقدس ہیں
یہ پیر دنیا کے ان عظیم مسافروں کے ہیں جنہیں کوئی گیان نہیں چاہیے
یہ پیر دھرتی پر سسئی بن کر چلتے ہیں اور پنہوں کو تلاشتے ہیں
یہ گیانی پیر نہیں، یہ دھیانی پیر نہیں، یہ پیر گوتم کے بھی نہیں
یہ پیر ان مسافروں کے ہیں جن کے لیے بابا فرید نے کہا تھا کہ
”درداں دی ماری دلڑی علیل اے!“
وہ علیل دل،وہ اداس نین اور وہ مسافر پیر!
سورج ہمارے لیے دوبتا ہوگا، دنیا کے لیے ڈوبتا ہوگا زمانے کے لیے ڈوبتا ہوگا
اسی سورج کو شکایت کی تھی لطیف نے کہ
”آؤن نہ گڈیس پرین کھے
تون تھو لھین سج!“
”میں اپنے پنہوں سے نہ مل پائی
اور سورج تم ڈوب رہے ہو!“
پر یہ شکایت تو پرانی ہو، اب سورج نہیں ان مسافروں کے لیے نہیں ڈوبتا
اب تو سورج ساتھ ساتھ چلتا ہے مسافروں کے! ماؤں کے! بہنوں کے! بیٹوں کے بوڑھے باباؤں کے اور ان معصوم بچوں کے جن کے ہاتھوں میں کھلونے نہیں پر وہ تصویریں ہیں جن کے نام بھی مٹ رہے ہیں اور اشکال بھی!

پر کیا درد مٹتا ہے؟
اگر درد مٹتا
تو نہ تو مائیں مسافر بنتیں اور نہ بیٹیاں!
اس لیے سورج ڈوب جانا تو اب خواب ہے خیال ہے
اب سورج نہیں ڈوبتا اب سورج ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے درد کے
اب درد سورج بن جاتا ہے اور سورج درد!
”قبائے خونِ شہیداں پہن چلا سورج!“

اب سورج اپنے جسم پر خونِ قبائے شہیداں پہن کر ان ماؤں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے جو مائیں درد کی مسافر ہیں جو مائیں نہ کردہ گناہوں کی سزا میں جی رہی نہیں جن ماؤں کو ملکی عدالتیں بھی انصاف مہیا نہیں کرسکیں جن ماؤں کا درد کہیں درج نہیں، یہ مائیں چلتی ہیں تو درد اور سوا ہو جاتا ہے اور ٹھہرتی ہیں تو درد بارش بن کر ان پر برستا ہے اور اگر وہ خود ٹھہر جاتی ہیں تو درد میں بھیگ جاتی ہیں!

یہ مائیں کہاں جائیں کس سے کہیں اور اپنا درد کہاں درج کرائیں
اس لیے اب سورج نہیں ڈوبتا
نہ شال کی گلیوں میں
نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر
نہ پہاڑوں کے دامنوں میں
نہ اداس شہر کی گلیوں میں
نہ سفر میں
نہ منتظر دید میں!
نہ نینوں میں
نہ آنکھوں میں
نہ پیروں میں
سورج نہ ڈوبتا
سورج اب درد کے ساتھ ساتھ چلتا ہے
”لہو میں ڈوب گیا پر نہ ڈھل سکا سورج!“
یہ مائیں یہ بہنیں یہ بیٹیاں سب ہی مسافر ہی درد کی مسافر کوئی نہیں جانتا کہ ان کی منزل کہاں ہے؟
یہ پیر بھی نہیں جانتے کہ ان کی منزل کہاں ہے؟
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو دیوانے ہیں وہ پیر بھی نہیں جانتے جو دانا ہیں
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو شال کی گلیوں سے چلے اور سندھ کی وادی میں پہنچے
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو سندھ مدینہ سے چلے اور اسلام آباد کوفہ جیسے شہر میں پہنچے
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو پیر مرد کے ہیں
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو سمی کے ہیں
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو مہلب کے ہیں
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو علی حیدر کے ہیں
وہ پیر بھی نہیں جانتے جو راہ میں ہیں اور وہ پیر بھی نہیں جاتے جو مسافر ماؤں کے ہیں
وہ پیر بھی نہیں جانتے جن کے وجود بس بلوچی زباں جانتے ہیں اور اپنی ماں بولی میں پوچھتے ہیں کہ
”میرا بیٹا کب آئے گا؟ “
اگر کچھ جاننا ہے تو ان جوتیوں کو دیکھو جو ان بیٹوں اور ماؤں کے پیروں میں ہیں
جو مٹی سے دھول آلود ہیں
جو درمان دل کی ماند زخمی ہیں
جو لہو لہو ہیں
کاش ان جوتیوں کا بھی دل ہوتا
زباں ہوتی
اور آنکھیں ہوتیں
تو خود ہی بیان کرتی
کہ انہوں نے کیا دیکھا
اور ان پر کیا بیتی؟
لطیف کو تو تمر فقیر کا ساتھ میسر تھا جو لطیف کی بھاری جوتی اُٹھا کر سوال کرتا
”سائیں ایسی بھاری جوتی؟ “
اور لطیف بھی جواب دیتا کہ ”تمر ان جوتیوں میں زمانے کا سفر اور درد بھی تو ہے!“
کاش ان مسافر ماؤں بیٹیوں اور بہنوں کو بھی کوئی تمر فقیر میسر ہوتا
جو ان کی دھول آلود جوتیوں کا درد ناپ سکتا!
اس لیے ہم بے حس ہیں ہم اس سفر کو جانتے ہی نہیں جو وہ قافلہ کر رہا ہے
جو لُٹا پھر بھی با وقار رہا
جو چلا پھر بھی با وقار رہا
جو ٹھہرا تو پھر بھی با وقار رہا
جو رویا تو پھر بھی با وقار رہا
”لُٹا جو قافلہ وہ سب سے باقار رہا!“
کیا علی زیدی ان پیروں کا درد جان پائے گا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں