بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ہفتے کے روز بلوچ رہنماء حاجی لشکری رئیسانی، ماما قدیر ، نصراللہ بلوچ اور دیگر پر ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا –
احتجاجی مظاہرے میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والے تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء و دیگر ماما بھی شریک تھے –
ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے ایف آئی آر واپس لینے کی اپیل کی –
دریں اثناء آج ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج 3 کوئٹہ کے عدالت سے حاجی لشکری رئیسانی اور دیگر کی 26 فروری تک عبوری ضمانت ہوگی –
لشکری کے عدالت میں پیش ہونے کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد نے سیشن کورٹ کے احاطے میں جمع ہوکر احتجاج کیا – اس موقع پر لشکری رئیسانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست کا دل ٹھنڈا نہیں ہورہا ہے تو اور ایف آئی آر درج کرے لیکن لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے –
انہوں نے کہا کہ ہم پر کروناوائرس پھیلانے کی الزامات بھی عائد کی گئی ہیں جو اس حکومت کی بوکھلاہٹ ہے –
انہوں نے کہا کہ ریاست اپنے ناکامیوں کو چھپانے کے لئے جعلی کیسز بناتا ہے-
لشکری نے کہا کہ لاپتہ افراد کی لواحقین سے میرا قومی اور انسانیت کا رشتہ ہے، یہ بات ثابت ہوچکا ہے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ریاست ملوث ہے –
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں لشکری رئیسانی، ماما قدیر ،نصراللہ اور دیگر پر ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی – ایف آئی آر متن کے مطابق مذکورہ افراد نے گذشتہ سال لاپتہ افراد کے ایک احتجاج کے دوران کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹی این ٹی چوک پر دھرنا دیا جبکہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کو دوران ڈیوٹی دھکا دیکر ریڈزون میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر سول لائن تھانہ میں پولیس ایس ایچ او محمد شہباز ھاشمی کی مدعیت میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں، بی این پی مینگل کے رہنماؤں سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین اور خواتین کارکنان کے خلاف درج کی گئی ہے جبکہ ایف آئی آر میں بی ایس او اور پی ٹی ایم کے کارکنان کے نام بھی شامل ہیں-
دوسری جانب بلوچستان کے مختلف قوم پرست حلقوں کی جانب سے بلوچ رہنماؤں پر ایف آئی آر درج کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو خوف زدہ کرنے کی حکومت حربہ قرار دیا جارہاہے