جبری گمشدگیاں: بلوچستان سے مزید تین افراد لاپتہ

650

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا شروع ہونے والا تازہ سلسلہ تھم نا سکا مزید تین افراد کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے-

تفصیلات کے مطابق پاکستانی فورسز نے 6 فروری کو رات گئے سوئی میں محمد ہاشم نامی شخص کے گھر کو گھیرے میں لیکر گھر کی تلاشی لی اور محمد ہاشم کو حراست میں لینے کے بعد اپنے ہمراہ لے گئے-

محمد ہاشم کے لواحقین نے انکی جبری گمشدگی کے واقع کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فورسز کے چھ کے قریب گاڑیوں پر مشتمل اہلکاروں نے محمد ہاشم کو حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے لواحقین کے مطابق محمد ہاشم پاکستان فوج کے سابق اہلکار رہے ہیں-

دوسری جانب گذشتہ روز پاکستانی فورسز نے تربت کے علاقے گوکدان سے نعیم نامی شخص کو حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے-

حالیہ جبری گمشدگیوں میں جو دو علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں نوشکی اور پنجگور شامل ہیں۔ نوشکی سے آج صبح فورسز نے پہلے سے جبری گمشدگی کے شکار مصطفٰی سرپرہ کے بھائی صادق ولد عزیز سرپرہ کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے-

یاد رہے نوشکی اور پنجگور میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے حملوں کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے دو درجن کے قریب لوگوں کو حراست میں لئے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں- گذشتہ روز فورسز نے خضدار سے حفیظ باجوئی نامی طالب علم کو لاپتہ کردیا ہے جبکہ اسی روز مزید 7 افراد مختلف علاقوں سے پاکستانی فورسز نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا-

حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلوچ سیاسی حلقوں کا کہنا تھا کہ پنجگور اور نوشکی میں ہونے والے واقعات کے بعد خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ بڑے پیمانے پر اجتماعی سزا کے طور پر عام اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ گذشتہ چند دنوں کے اندر عام لوگوں کو نشانہ بنانے کے بعد خدشہ حقیقت میں بدل گیا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن آزاد کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ حالیہ دنوں مارو اور پھینکو والی پالیسی واپس تیز کر دی گئی ہے ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف عالمی اداروں کی خاموشی اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔