بلوچ اور پشتون ریاستی جبر کے شکار ہیں – ماما قدیر بلوچ

507

جبری گمشدگیوں کے شکار سیاسی کارکنوں کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4581 دن مکمل ہوگئے –

کراچی پریس کلب کے سامنے جاری کیمپ میں آج پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنماؤں سرور جاوید، مسحود محمد، شیر سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے آکراظہار یکجہتی کی-

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ اور پشتون ریاستی جبر کے شکار ہیں-

انہوں نے کہا کہ جبراستبداد کے خلاف پرامن جدوجہد کا پیدا ہونا ناگزیر ہے خصوصاً ایسے سماج اور اقوام میں جہان آزاد باوقار اور مساوی حیثیت میں زندہ رہنا عمومی مزاج اور نفسیات کا نمایاں خاصہ ہو وہاں محکومی جبری صورت حال کو زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا-

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ نسل کشی نوآبادیاتی ریاستی پالیسی پر عمل در آمد کا گھناؤنا آغاز تھی اس کے بعد أٹھاو مارو اور پھینکو کا وحشیانہ عمل تیزکرد یاگیا جوتاحال جاری ہے بلوچ نوجوانوں کو جبری اغواء اور پھر خفیہ عقوبت خانوں میں زیر حراست رکھر بدترین انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا بعد ازاں انہیں وحشیانہ طریقے سے شہید کرکے ان کی مسخ لاشوں کو مختلف مقاموں پر پھینک دیا جاتا ہے یہ شہادتیں دراصل قابض قوتوں کی طرف سے بلوچ قوم کو ایک واضح پیغام ہے کہ صرف بندوق ہی بلکہ بلوچ اپنے قومی اکیلیے پرامن اور جمہوری طور پر بھی پرامن آواز اٹھاۓ گا أس کا انجام بھی وہی گا دوسرے کا ہوا ہے –

انہوں نے کہا کہ ریاست ہر وقت نہتے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر جبر کے زریعے لوگوں کو خوفزدہ کرتا ہے-

قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان سے شروع ہونے والا ریاستی جبر کا پالیسی اب سندھ اور پشتونخوا تک پہنچ گئی ہے –