میں ہتھیار نہیں پھینکوں گا ۔ ریاست خان بلوچ

1374

میں ہتھیار نہیں پھینکوں گا

تحریر: ریاست خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک دن اچانک کمانڈر نے سبھی سپاہیوں کو آواز دے کر یکجاہ ہونے کا کہا، کیمپ میں درجن سے زیادہ سپاہی موجود تھے, ان میں سے جو عمر میں چھوٹے اور نئے بھرتی شدہ تھے وہ روز مرہ کے کام کاج میں مصروف تھے، ان میں سےکوئی چائے تیار کر رہا تھا تو کوئی برتن وغیرہ کی صفائی اور جو پرانے اور سینئر ارکان تھے وہ سبھی ایک ساتھ یوں بیٹھے ہوئے تھے کہ مانو انہیں کمانڈر کے بلائے جانے کا ہی انتظار ہو۔ جب کمانڈر کے حکم کی تعمیل ہوئی اور کیمپ میں موجود تمام ارکان یکجاہ ہوئے تو کمانڈر نے قدرے بلند آواز میں بولنا شروع کیا کہ اب مزید اس جنگ کا حصہ ہونا خودکشی کے مترادف ہے، ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری افرادی قوت کتنی قلیل اور دشمن کی کتنی عظیم ہے۔۔؟ ہمارے پاس موجود وسائل کتنے محدود اور ان کے کتنے لامحدود ہیں۔؟ اس حقیقت کا جائزہ لینے کے بعد میں اور کیمپ کے سینیئر ارکان اس نتیجے پر پہچے ہیں کہ ہم ایک ہاری ہوئی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ شروع ہی نہیں ہونا چاہیے تھا اور ہمیں قطعاً بھی اس میں شمولیت اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی۔

لیکن ہمارے پاس اپنی غلطی سدھارنے کو اب بھی وقت ہے اس لئے میں نے اور میرے باقی ساتھیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم دشمن کے سامنے جاکر کر اپنے ہتھیار پھینک دینگے، میں نے تمام بندوبست کر رکھا ہے اور میں تم سب کو یقین دلاتا ہوں کہ تم میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کیمپ کی اکثریت کو پہلے سے اس منصوبے سے آگاہ کیا گیا ہے اور جن جن کو آگاہی نہیں وہ جان لیں کہ ہم آج اور ابھی شہر کیلئے نکل رہے ہیں۔

یہ سننا تھا کہ اچانک ایک لمحے کیلئے چاروں اطراف خامشی پھیل گئی لیکن دوسرے ہی لمحے ایک سولہ سالہ لڑکا خاموشی میں طیش پیدا کرتے ہوئے پیچھے مڑا اور دوڑ کر ایک پتھر کے پیچھے جاکر مورچہ زن ہوا اور زور سے للکار کر کہا کہ میرے لئے یہ معنی نہیں رکھتا کہ جنگ میں جیت کس کی ہوتی ہے اور کون ہارتا ہے لیکن دشمن کے سامنے ہتھییار پھینکنا بزدلی ہے اور میں تمھاری طرح بزدل ہرگز نہیں ہوں۔
دوسری طرف سے کسی نے دھمکی آمیز لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنی بندوق پھینک دو ورنہ ہم تمھیں مارنے کے بعد ہی پہاڑوں سے نیچے اتریں گے، تم ایک ہو اور ہم درجن سے زیادہ ہیں۔

اس پر اس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا ہتھیار میرا غرور ہے، میری سانسیں پہلے نکلیں گی اور میرے ہاتھوں سے ہتھیار بعد میں گرے گا اور تم میں سے جو بھی میرے قریب آیا وہ اپنی جان سے جائے گا۔ تم اپنے باپ داداؤں کی روایات سے منحرف ہو سکتے ہو لیکن میرا ضمیر مجھے قطعاً بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ دشمن کے سامنے اپنی آبرو پھینک آؤں۔

دوسری طرف سے ایک بار پھر ہتھیار پھینکنے کا کہا گیا جس پر وہ ایک بار پھر بول پڑا کہ تم میں سے اگر کسی نے بھی میری طرف ایک قدم بڑھایا تو خدا کی قسم وہ واپس زندہ نہیں لوٹے گا۔

کمانڈر جو بہت پیچھے کھڑا تھا اس نے اپنوں سپاہیوں کو کہا کہ اسے چھوڑ دو اور پیچھے ہٹو اس کے ہاتھوں میں بندوق ہے اور وہ کچھ بھی کرنے کا اہل ہے۔

کمانڈر کے نزدیک سمجھے جانے والے ایک ساتھی نے اونچی آواز میں اسے مخاطب کر کہا سنو! ہم یہاں سے جا رہے ہیں اور جاتے ہوئے ہم کوئی جھگڑا نہیں چاہتے۔ ہماری طرف سے تمھیں کوئی خطرہ نہیں ہے جب تک کہ تمھاری طرف سے پہل نہیں ہوتی۔

یہ کہہ کر اس نے باقیوں کو وہاں سے نکلنے کا کہا۔ان میں سے ایک نے جاتے ہوئے کہا کہ ہم تو جا رہے ہیں پر تم یہ جان لو کہ تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو، تم ابھی بچے ہو، تم خوامخواہ ہی میں مارے جاؤ گے، اور یقین کرو کہ تمھاری موت پر رونے والے صرف تمھاری ماں بہنیں ہی ہونگی کسی اور کو زرا برابر بھی فرق نہیں پڑنے والا کہ تم جیتے ہو یا مارے جاتے ہو۔

وہ پتھر کے پیچھے خاموش بیٹھا سب سنتا رہا۔ اور انہیں کیمپ کے احاطے سے نکلتا ہوا دیکھتا رہا، کچھ ہی منٹوں بعد وہ کیمپ میں تنہا رہ گیا تھا، اس کے تمام ساتھی وہاں سے نکل چکے تھے، ان کے نکلنے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے آیا، پانی کی بوتل اٹھاتے ہوئے اس کی نظریں کیمپ کے مرکز پر پڑی جہاں جلائے گئے لکڑیوں سے اب بھی دھواں اٹھ رہا تھا، یہ وہی جگہ تھی جہاں آگ جلانے کے بعد کیمپ میں موجود تمام ساتھی آگ کے گرد گول دائرہ بنا کر بھیٹتے اور سیاست و مزاحمت پر بڑے زور شور سے مباحثے کرتے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں چند دن پہلے تک آزادی و انقلاب پر باتیں ہوتی تھی۔ جہاں قربان ہونے کی قسمیں اٹھائی جاتی تھیں، لیکن اب وہاں کوئی نہیں،
وہ سولہ برس کا لڑکا کچھ ہی مہینے پہلے آزادری و انقلاب کی دیپ دل میں جلائے اپنا شہر ، گھر بار اور آرام کی زندگی چھوڑ چھاڑ کر پہاڑوں میں اپنے حصہ کی لڑائی لڑنے آیا تھا ۔ وہاں اس کی ملاقات ایسے دوستوں سے ہوئی جو کئی کئی سالوں سے انہی پہاڑوں کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھے اور آزادی کی جنگ کا حصہ تھے۔ وہ کم عمر لڑکا کیمپ میں بیٹھے ہوئے دوستوں کو بار بار کہتے ہوئے سنتا کہ یہ جنگ بڑی قربانیوں کا متقاضی ہے، ہمیں ہمہ وقت کسی بھی نوع کی قربانی دینے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ وہ انہی مباحثوں میں الجھتے دیکھتا، انہیں دلائل دیتے ہوئے سنتا اور بڑے فخر کے ساتھ جنگوں میں اپنی بہادری کی داستانیں بتاتے ہوئے سنتا۔ ان کی باتوں سے اسے ایک نئے اور روشن مستقبل کی نوید دکھائی دیتی۔ انہیں دیکھتے، سنتے اور بولتے دیکھ کر اسے شہروں میں خوف کے سائے تلے زندہ لوگ انتہائی حقیر، بزدل اور بے ضمیر معلوم ہوتے۔

وہ خود مباحثوں میں کبھی بھی حصہ نہیں لیتا اور ہمیشہ خاموش بیٹھتے ہوئے یہ ساری باتیں سنتا اور ایسے بے باک اور بہادر لوگوں کے بیچ اپنی موجودگی پر فخر محسوس کرتا۔

اسے وہاں آئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اس نے اچانک کیمپ کے ماحول میں ایک عجیب سی بے چینی اور اپنے دوستوں کے رویوں میں بے حسی محسوس کی، دوستوں کی عمومی حرکات میں اچانک سے تبدیلی آئی۔ وہ جب اپنے دوستوں کی آنکھوں میں دیکھتا تو محسوس کرتا کہ اس سے کوئی بہت بڑی بات چپھائی جارہی ہے وہ یوں محسوس کرتا کہ اس کے بہت سے دوست اس سے نظریں چرا رہے ہیں جس سے اسے کسی غیر متوقع اور بڑے حادثے کا اندیشہ ہوتا۔

اور آج اس کے تمام اندیشے واضح ہو گئے تھے، اتنے دنوں کی تذبذب کے بعد سارا ماجرہ ہی پلے پڑ گیا تھا، یہی وہ غیر متوقع، ناقابل یقین اور بڑا حادثہ تھا جس کا اسے بار بار گمان ہوتا تھا۔

اس نے جلدی جلدی اپنا کِٹ کندھے پر اٹھایا اور پاس ہی موجود پہاڑ کی چوٹی پر چڑھا جہاں سے اس نے اپنے منحرف ساتھیوں کو موٹر سائیکلوں پر سوار پہاڑوں سے نیچے اترتے اور شہر کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا جو دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے جا رہے تھے۔

وہ دیر تک پہاڑوں سے آگے تھوڑے ہی فاصلے پر موجود کھلے میدان میں موٹر سائیکلوں کے پیوں سے اٹھنے والے گرد کو تکتا رہا اور خیال کرتا کہ یہ حقیقت بلکل بھی نہیں ہوسکتی، یہ ممکن ہی کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ بہت دیر تک اپنے کمانڈر مہراللہ جسے وہ اپنے والد کی طرح عزت دیتا تھا کے متلعق سوچتا رہا کہ وہ کیسے جا سکتا ہے اسی نے ہی تو کچھ ماہ پہلے مجھ سے دشمن سے دشمنی نبھانے کا حلف لیا تھا اور آج وہ خود کیسے اپنے بتائے ہوئے راستے سے منحرف ہوسکتا ہے۔

وہ مغرب تک حیرت زدگی کے ساتھ اسی پہاڑ پر بیٹھا رہا اور رات ہونے سے پہلے ہی پہاڑ سے نیچے اترا، پانی کے چشمے پر پنہچ کر بوتل میں پانی بھرتے وقت وہ دل ہی دل سوچتا رہا کہ اب کیا۔۔؟ اب میں کہاں جاؤں۔۔؟ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔؟

اسی دوران اسے اچانک یاد آیا کہ کچھ ہی دن پہلے پیدل سفر کے دوران ایک دوسرے کیمپ سے گزر ہوا تھا جو یہاں سے کچھ ہی گھنٹوں کی دوری پر ہے، اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ مجھے وہاں جانا ہوگا۔

وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا پانی کی بوتل، اپنی بندوق اور دیگر ضروری سامان لے کر دوسرے کیمپ کی کھوج میں نکل پڑا۔

نومبر کا مہینہ تھا اور رات اتنی سرد کہ خون جمادے لیکن وہ سردی سے بے نیاز چلتا رہا، ایک جگہ پر آکر اسے احساس ہوا کہ وہ غلط راستے پر چل نکلا ہے، رات کے اندھیرے میں اس کیلئے درست راستہ کھوجنے کی کوشش مزید مصیبت دعوت دینے کے مترادف تھی اور اسے اس چیز کا بخوبی علم بھی تھا سو وہ پیش(مزری) کے درختوں کے نیچے ایک عدد شال اوڑھے سو گیا اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی سامنے موجود پہاڑوں پر چڑھ کر علاقے اور راستوں کا جائزہ لینے لگا، جلد ہی اسے درست سمت کا اندازہ ہوا اور وہ کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد دوسرے کیمپ جا پہنچا۔

اس واقعے کو چند دن ہی گزرے تھے کہ وہ سولہ سالہ لڑکا ایک خون ریز جھڑپ کے دوران دشمن سے لڑتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھیوں کے ہمراہ مارا گیا۔ اس کی لاش کئی روز تک وہیں پہاڑوں میں ہی پڑی رہی جس سے اس کے جسم سے نکلا خون بھی خشک ہو کر مٹی اور گرد کے نیچے دب گیا۔ اس کے جسد کو شہر لے جا کر اس قبرستان میں بھی دفن کیا جاسکتا تھا جہاں اس کے خاندان کے دوسرے لوگ دفن تھے لیکن اسے وہیں پہاڑوں میں ہی سپرد دھرتی کیا گیا۔ یہ شاید اس لئے کہ وہ آزادی کی تلاش میں شہر سے پہاڑوں کی طرف آ نکلا تھا، یا شاید اس لئے کہ وہ اپنے ہونے کا راز تلاشنے پہاڑوں میں آیا تھا۔ خیر! وجہ چاہے جو بھی ہو لیکن اس کیلئے شہروں سے پہاڑ زیادہ افضل تھے سو اس کی آخری آرام گاہ اس کی وطن کے خشک، بنجر اور چٹیل پہاڑ ہی ٹھرے۔

وہ سولہ سالہ لڑکا اور کوئی نہیں بلکہ ہمارے وطن کا سچا فرزند، دلیری و بہادری کا علم بردار سنگت حمید حرفِ اخلاق بلوچ تھا، جس نے انتہائی سخت حالات اور سوچنے کی صلاحیت کو جما دینے والی کیفیت میں بھی انتہائی درست فیصلہ لیتے ہوئے اپنے پیش روں کی ریت کو جلا بخشا جو میدان جنگ میں کبھی بھی خوف کا شکار ہو کر ضمیر فروشی نہیں کرتے اور جنگ سے پیٹ نہیں پھیرتے۔

وہ شخص جاتے ہوئے حمید سے جھوٹ کہہ گیا تھا کہ تمہاری قربانی رائیگاں جائیگی، کل کو تمھارا کوئی نام بھی نہ لے گا بلکیہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ جو منحرف ہوگئے، جو بزدل ثابت ہوئے وہ تاریخ کے تھپیڑوں میں گم ہونگے، کل کو ان کی اولادیں بھی انہیں اپنا کہنے پر شرمسار ہونگے جبکہ ہمارا حمید رہتی دنیا تک تاریخ کے پنوں میں امر رہے گا۔ اور پوری قوم اور ہماری آنے والی نسلیں اسے اپنانے پر فخر محسوس کریں گی۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں