بلوچستان پبلک سروس کمیشن ایک تجارتی منڈی ۔ سَمند خان

554

بلوچستان پبلک سروس کمیشن ایک تجارتی منڈی

تحریر: سَمند خان

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان پبلک سروس کمیشن اب آہستہ آہستہ بدلتا جارہا ہے انتظامی حوالے سے مکمل طور ابتری کی طرف گامزن ہے، کمپیوٹر لیب سے لیکر ساری مینجمینٹل سسٹم کو کرپشن کی نظر لگ گئی ہے۔ وہ حیثیت اب ان میں باقی نہیں جس وقت کولی صاحب چیئرمین تھا، جس نے سارے انتظامات سسٹمائز کئے تھے۔ جہاں نہ سفارش کا کوئی کلچر دکھنے میں ملتی تھی اور نہ ہی ٹیسٹ اور امتحانات سے پہلے Questions کے حوالے سے کوئی معلومات ملتی تھی۔ لیکن اب معاملات بالکل اسکے برعکس ہیں۔ ٹیسٹ اور امتحانات سے پہلے ہی سرمایہ دار اور امیر طبقہ کے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ سوالات کون کونسے ہیں اور کون کونسے بُکس سے چُنے گئے ہیں جو کہ انتہائی افسوسناک اور مایوسانہ صورتحال پیش کر رہا ہے اگر دیکھا جائے تو اس کے بھیانک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان واحد پسماندہ صوبہ ہے جسکے ہر پہلو میں دیکھا جائے کرپشن، غربت، استحصال آسمان کی بلندیوں کو چوم رہا ہے۔ غریبوں کیلئے کوئی راستہ نہیں جہاں Upper Class کے لوگ تو عیاشیاں کر رہے ہیں لیکن متوسط اور درمیانہ طبقے کے لوگ بدستور استحصال کی زد میں ہیں۔

عام پوسٹوں پر تو اول دن سے سفارش کلچر کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن کچھ امیدیں بلوچستان پبلک سروس کمیشن پر تھیں اب آہستہ آہستہ اب وہ امیدیں آہستہ آہستہ بدستور ختم ہونے جا رہے ہیں۔

زیارت اور ژوب سے میرے اپنے کلاس کے ایسے ہونہار اور زہین لڑکے گزشتہ وٹرینری آفیسر اور ایگریکلچر کے ٹیسٹ میں شامل تھے جنکو پورا وٹرینری کا کورس حفظ تھا اور ٹیسٹ کے بعد ہشاش بشاش تھے کہ ہمارا ٹیسٹ بالکل سو فیصد صحیح ہو چکا ہے، جب MSQs کے نتائج آئے تو واقعی انہوں نے کوالیفائی کئے لیکن انٹرویو کے بعد پتہ چلا کہ یہاں معاملہ کچھ اور ہے جس سے نا امیدی کی کیفیت میں اضافے ہونے کی لہریں ابھر آئیں۔ ایگریکلچر آفیسر ٹیسٹ کیلئے بھی میرے جانا پہچانا دوست تھے، جنہوں نے فیصل آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے لیکن انکی امیدیں بھی خاک میں مل گئیں۔

میں نے یہ صورتحال دیکھ کر بہت پریشان ہوا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو کس کی نظر لگ گئی ، جہاں غریب امیدوار بھی امیروں سے زیادہ توقعات باندھے مختلف یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں یہ امید لیکر داخلہ لیئے پڑھتے تھے کہ مستقبل میں قابلیت کی بنیاد پر انہیں نوکریاں ملیں گی لیکن BPSC میں بدنظمی اور کرپشن کی صورتحال نے تمام امیدوں کو ایک خشک کاغذ کی طرح آگ لگا کر جلا دی۔

قلات ڈویژن سے تعلق رکھنے والے میرے ایک خاص دوست نے مجھے بتایا کہ گزشتہ وٹرینری آفیسر کے ٹیسٹ میں کچھ پوسٹیں کرپشن کی وجہ سے چلی گئی ہیں اور کچھ پوسٹیں بلوچستان پبلک سروس کمیشن (BPSC) کی بدنظمی اور مخدوش انتظامی صورتحال کی وجہ سے چلی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ/امتحان کے چند روز پہلے جو MSQs بنائے گئے تھے اور جس بک سے لئے گئے تھے، وہ سارے کچھ لڑکوں کو ٹیسٹ سے پہلے معلوم تھے اور انہوں نے بخوبی ان سے تیاری کی اور دوسرے محنتی لڑکوں سے زیادہ اسکور حاصل کر لئے جسکی بنا پر انکی پوسٹیں ہوئیں۔ اگر انکو بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ایڈمنسٹریشن کی عدم توجہی کا نام دیا جائے، لاعلمی کا نام دیا جائے یا کہ جان بوجھ کر کرپشن کے ماحول کو گرم کرنے کی راہوں کو ہموار کرنے کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اگر کسی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے لیکچررز یا پرفیسرز سے وہ MSQs بنوا رہے ہیں یا کہ ان سے کسی بک کی Suggestion لے رہے ہیں آیا انکو یہ سو فیصد یقین ہے کہ وہ اپنے اسٹوڈنٹس کو نہیں بتائیں گے کہ ٹیسٹ میں کونسے سوالات اور کس بک سے لائے جا رہے ہیں۔ حالانکہ مجھے کچھ حد تک پتہ ہے کہ گزشتہ وٹرینری آفیسر کے ٹیسٹ کے MCQs لسبیلہ یونیورسٹی کے کونسے ٹیچرز نے بنائے تھے اور بک کس نے BPSC کو دیئے تھے۔
اب بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو اتنی کیپاسِٹی نہیں کہ وہ عام لیکچرر یا کسی عام بندے سے ٹیسٹ لینے کا مواد اکھٹا کرتے ہیں انکو یہ پتہ نہیں کہ امتحان سے پہلے لڑکوں کو معلوم ہے کہ کونسے MCQs پڑھنے ہیں۔

اگر یہ غریب امیدواروں کی حق تلفی نہیں تو کیا ہے؟ اگر کچھ پوسٹیں محمود خان اچکزئی، کچھ پوسٹیں جام کمال صاحب، کچھ پوسٹیں بی این پی کے سینیٹر ثنا اور کچھ قدوس بزنجو کے اہم بندوں کو دینے ہیں تو غریبوں کے لئے اب کیا رہ گئی ہے۔ آخری امید بلوچستان پبلک سروس کمیشن تھا، جو صوبائی اور وفاقی حکومت کے وزیروں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

اس صورتحال کے اندر صوبے میں بدامنی، چوری، ڈکیتی، دھماکے، حملے نہ ہوں تو کب ہونگے۔ یہی غریب کے بچے مایوس اور ناامید ہو کر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں اور مختلف واردات میں ملوث ہوتے ہیں۔
ان سے نہ صرف یونیورسٹی سے فارغ التحصیل لوگ مایوس ہونگے بلکہ میٹرک اور انٹر کے طلبا بھی اپنے پڑھائی سے دستبردار ہوکر دوسرے کاموں کی طرف لگے رہتے ہیں۔

لیکن حکومت اور حکومتی ادارے یہ جان لیں کہ جب کمیشن کا حال اس سے ابتر ہو اور مایوسی کی کیفیت نے ہر ایک زہن میں جگہ کر لیں تو صورتحال کو پھر سے قابو میں لانے کے لئے عرصے لگتے ہیں۔ اپنے حقوق کیلئے کوئی خاموش نہیں رہ سکتے حقوق لینے کیلئے بہت سے راستے ہیں اگر ایک رستے کو بند کیا جاتا تو دوسرے راستے پر جانے کے آپشنز ہیں۔

بلوچستان کے صوبے کو وزیروں، سرداروں اور فوج کے قریبی بندوں نے تباہ و برباد کر دیا ہے ایک طرف بلوچستان کے ساحل وسائل کو لوٹا جا رہا ہے دوسری طرف پشتون اور بلوچ بھائیوں کو کمیشن میں بھی پیچھے دھکیلا جا رہا ہے جو کسی طرح قابل برداشت نہیں۔

چیئرمین سالک صاحب اور انکی ٹیم سے درخواست ہے کہ MCQs بنانے سے پہلے سوچ اور سمجھ کر تدابیر ڈھونڈنا ہے ان سے MCQs اور بک نہ لیا کریں جو ٹیسٹ سے پہلے امیروں اور وزیروں کے لڑکوں کو معلوم ہوں۔

اپنے کرپشن کو چھپانے کیلئے ایک یا دو پوزیشن ہولڈرز، اور ایک دو انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کے انتخاب سے آپ کے یہ منصوبے کارگر ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ آپ کے عزائم کا بخوبی پتہ چل گیا ہے کہ آپ کن کن وزیروں کے رشتہ داروں کو پوسٹیں دے رہے ہو، یہ بات سب کو پتہ ہے اس بات کو تب پتہ چلا جب وٹرینری کے انٹرویو ہونے والے تھے تو تب آپ نے نئی پوسٹیں اناؤنس کئے تاکہ لڑکے خاموش رہ کر نئے پوسٹوں کی تیاری میں لگے رہیں۔ خدارا اب ایسا نہیں ہونا چاہئے ہم لوگوں نے بہت کربناک لمحے گزاری ہیں اور قیمتی وقت ڈگری لینے کیلئے ضائع کی ہیں اب ہم ان چیزوں کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ جو گزشتہ غلطیاں سر زد ہوئی ہیں اب نہیں ہونی چاہئے۔ سوچ سمجھ کر کتاب اور MCQs اٹھانا ہے بصورت دیگر بلوچستان پبلک سروس کمیشن اب ایک تجارتی منڈی کی صورتحال پیش کر رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے اس بدنظمی اور مخدوش انتظامی کیفیت کو ختم کرنے کیلئے۔

امید ہے کہ چیئرمین سالک خان صاحب گزشتہ غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ صورتحال کو بہتر اور انتظامات میں بہتری لانے کی کوشش کیا جائے گا تاکہ نا امیدی اور مایوسی ختم ہوں اور غریبوں کے مستقبل کو خطرات سے نکال کر امید کی چوراہوں پر محو سفر کیا جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں