میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں (حصہ دوم)
تحریر: مہرجان
دی بلوچستان پوسٹ
نیشنل ازم پہ اکیڈمک دنیا میں سب سے بنیادی اعتراض جو کیا جاتا ہے وہ یہ کہ “نیشنل ازم امیجنری ہے”۔نیشنل ازم کے حوالے سے چار بڑے نظریہ ساز ایرک ہابسبوم (مارکسسٹ مورخ)، بینیڈکٹ اینڈرسن، ارنیسٹ گیلنر (لبرل)، اور سوشلسٹ نائجل ہیرس ہیں۔ یہ چاروں اس بات پر متفق ہیں کہ “قوم ایک امیجنری تشکیل ہے” اس اعتراض کے علاوہ فلسفے کی دنیا میں “شناخت کا مستقل نہ ہونا “ بھی ایک بنیادی سوال ہے۔
جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے کہ نیشنل ازم “امیجنری تشکیل” ہے یہ اعتراض بعض صورتوں میں ھیگل کے فلسفیانہ نظام پہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ ھیگل کا فلسفہ تجریدی و امیجنری ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ رسل کے بقول ھیگل کے فلسفہ کو جب بھی حقیقی طور پر دیکھا جائے تو وہ زمین بوس ہو جاتا ہے گرچہ رسل کا ھیگل کیساتھ رومانس بہت عرصے تک چلا یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تحریروں کے لیے ھیگلین میتھڈ(تھیسز ، اینٹی تھیسز و ساہیتھیسز)کے لیے ذہن میں ایک باقاعدہ پروگرام بھی رکھتا تھا ،لیکن یہ رومانس رسل کے اپنے تشکیکی مزاج کی وجہ سے دیرپاء نہ رہ سکا۔
“نیشنل ازم کی امیجنری تشکیل “یہ تنقید میرے خیال میں متعرضین یورپ کے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر کرتے ہیں جہاں پرنٹنگ ، انڈسٹریلزم ، کیپیٹلزم ، مارکیٹ کے عناصر کو نیشنل ازم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے یعنی قومیت کا تصور پرنٹنگ پریس یا انڈسٹریز کے آنے کے بعد زیادہ قوی ہوا ، اس میں مارکیٹ اور کیپیٹل ازم کا کردار بھی بہت اہم رہا۔ نیشنل ازم کی اس طرح کی تشریحات و تعبیرات کو بنیاد بنا کر انہیں دوسری قوموں اور سرزمینوں پر لاگو کیا جاتا ہے۔یہ طریق کار اپنی فطرت میں غیر جدلیاتی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے بلوچ نیشنل ازم کو معروضی حالات و نو آبادیاتی صورتحال کے تحت دیکھا جائے تو یہاں یوریپین نیشنل ازم کی صورتحال بلکل نظر نہیں آتی۔ بلوچ نیشنل ازم کی اپنی ایک جدلیات ہے جو پری انڈسٹرلاہزیشن ہے ،جس کی طرف عدیل خان (پی ایچ ڈی تھیسز جو اب کتابی شکل میں موجود ہے ) نے بھی اشارہ کیا ہے ہر قوم کی اپنی جدلیات کو سمجھنا اور آگے بڑھنا دانشمندی بھی ہے اور عمل کے لیے دلیل بھی۔بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ نیشنل ازم امیجنری تشکیل ہے اور یہی “امیجنری تشکیل” اگر ڈی کالونائزیشن کے لیے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پہ استعمال ہورہا ہے تو اس میں خرابی کیا ہے ؟ کیا سوشل ازم یا کسی بھی ‘ازم’ میں امیجنری نظام کو یکسر مسترد کیا جا سکتا ہے ؟ “ایک ہوں مسلم حرم کی باسپانی کے لیے “ یا “دنیا کے سارے مزدوروں اک ہوجاؤ” کیا ان نعروں میں امیجنری صورتحال کو مسترد کیا جا سکتا ہے؟ حتٰی کہ سائنس کی دنیا میں بھی امیجنری صورتحال کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ ارسطو جیسے تجربیت پسند فلاسفر کے ہاں بھی امینجینشن کا کافی عمل دخل ہے ، یہ بات ذہن نشین رہے کہ “ہمیشہ تشکیل کی شروعات امیجن کرنے سے ہی ہوتی ہے” اب وہ امیجن معروض کی پیداوار ہے یا موضوعی ہے اس پہ بحث ہوسکتی ہے لیکن کسی بھی قوم کے لیے ایک مؤثرہتھیار کو فقط امیجنری تشکیل کہہ کر رد کرنا جدلیاتی طریق کار ہرگز نہیں۔
جہاں تک شناخت کے مستقل نہ ہونے کا تعلق ہے یعنی کہ شناخت ہمیشہ تغیر پذیر ہے اور ایک تغیر پذیر شناخت کے لیے کیا مزاحمت کی جائے ؟ یہ سوال صرف شناخت کے حوالے سے نہیں کیا جاتا بلکہ فلسفے میں علم کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے بقول ہیراکلیطس جب ہر شے تبدیل ہورہی ہے پھر کوئ چیز جانا ہی نہیں جاسکتی جبکہ اس کے مقابلے میں پارمینڈیس فلسفہ سکوت کا ہے کہ تبدیلی دھوکہ ہے۔پارمینڈیس اور ہیراکلیطس جوایک دوسرے کے کسی حد تک مخالف سمت کھڑے ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں جدلیات کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جہاں ھیگل کی جدلیات کی جڑیں ایلیائی مکتبہِ فکر (پارمیناہڈیس) میں پائی جاتی ہیں تو دوسری طرف ہیراکلیطس کا ہر جملہ ھیگل اپنے جدلیات کے لیے اپناتا ہے ۔
تبدیلی کے فلسفہ کے لیے ہیراکلیطس جو مثال پیش کرتا ہے کہ آپ کسی بھی دریا میں دو دفعہ پاؤں نہیں رکھ سکتے کیونکہ جب آپ دوسری دفعہ پاؤں رکھینگے تو وہ دریا پانی کی بہہ جانے کی وجہ سے تبدیل ہوچکا ہوگا۔ یہاں پہ جو بنیادی بات بعض دفعہ نظر انداز کی جاتی ہے وہ دریا کی واحدانی شناخت (sole identify) ہے یعنی دریا وہی رہے گا (مثال کے طور پر) دریا پتھر ، پھول ، چاند یا ستارہ وغیرہ نہیں بنے گا۔ ہیراکلیطس کا (One in many ) کا فلسفہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ شناخت کی تبدیلی ہورہی ہے لیکن وحدنیت کے اندر اس تبدیلی کو معروضی حالات سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ آیا یہ تبدیلی ہورہی ہے یا تبدیلی پیدا (انجینرڈ) کی جا رہی ہے یہاں ھیگل کا فلسفہ (لازمیت و اتفاقییت) کو مد نظر رکھ کر تبدیلی کو دیکھا جاۓ لازمیت و اتفاقیت جو دنیاۓ فلسفہ کا اک بہت ہی لاینحل مسئلہ تھا جسے ھیگل نے حل کرنے کی زبردست کوشش کی ۔
نوآبادیاتی تناظر میں ہمیشہ تبدیلی اک خاص اجارہ داری کو دوام دینے کے لیے پیدا کی جاتی ہے ، جہاں بقول فراز فینن دو دنیائیں جنم لیتی ہے ، جہاں پولیٹکل و سول سوساہیٹیز ان دو دنیاؤں کو جوڑ کر حاکموں کی حاکمیت کو دوام دیتے ہیں جبکہ مزاحمتی سیاست و ادب ان دو دنیاؤں میں تفاوت پیدا کرکے حاکموں کی حاکمیت کو کمزور تر کرتی ہے۔ اب یہاں سے ادیب و دانشور کا کام شروع ہوجاتا ہے کہ وہ تبدیل شدہ صورتحال کو معروض سے جوڑ کر قوم کو آگاہی دیں کہ کیسے اس نوآبادیاتی تبدیلی کے سامنے دیوار بن کر اپنی شناخت ، ثقافت و روایات کا ضامن بن کر اپنی دنیا آپ بنائے کیونکہ تبدیلی پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے آپ کی شناخت ، ثقافت و روایات کالوناہزر کے زد میں آتے ہیں کہ کیسے لسانیات و طاقت کا سہارا لے کر آپ کو آپ کی نظر میں گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں کالوناہزڈ دانشور کے الفاظ محض خالی خولی باتیں نہیں ہونی چاہییں بلکہ بقول سارتر ان کے الفاظ گولی کی طرح نشانہ پہ لگنے چاہییں کیونکہ خالی خولی باتوں سے صرف شور کا سماں پیدا ہوتا ہے جس طرح خالی فائر کرنے سے بچے تالیاں مارتے ہیں لیکن اصل کام گولی کا نشانے پہ لگنا ہے۔ سب سے ضروری امر دانشور کے پاس استعمار کی اصطلاحات و بیانیہ میں چھپی کارفرما طاقت کو دیکھنے والی بصیرت کا ہونا ہوتا ہے۔ جس پہ مشل فوکو جیسے لکھاریوں نے بہت وضاحت سے لکھا ہے کہ طاقت ہی ہر جگہ کار فرما ہوتی ہے اور دانشور کی بصیرت ہی یہی ہے کہ ان الفاظ میں چھپے ہوۓ پاور میکنزم کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہے
یہ بات ذہن نشین رہے کہ لفظ اور انکی معنویت پہ جن طاقتوں کی اجارہ داری قائم ہوتی ہے وہی ذہنوں پہ حکمرانی کر رہے ہوتے ہیں ترقی ، ترقی پسندی ، روشن خیالی ، مساوات ، جمہوریت ، تہذیب ان سارے الفاظ کو جو معانی “دیے” گئے ہیں وہ دراصل انکے اپنے معانی نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے “طاقت” کا ایک پورا میکنزم کارفرما ہے۔ استعماری تہذیب اپنا تصورِ تہذیب (سیلف)، اپنے ‘دوسرے”(ادر) کو ہر طریقے سے غیر معقول ثابت کرنے کی بنیاد پر متعین کرتی ہے اور اس سے ‘دوسرے’ کی شناخت اور ان کی حقیقت بھی متعین ہوجاتی ہےاستعماری تہذیب اپنے استعماری وجود کے لیے، کچھ ایسی اصطلاحات کا سہارا لیتی ہے، جس سے خود انکی تہذیب اور ان کی علمیت کو آفاقی حیثیت جبری طور پر حاصل ہوجاتی ہے، وہ اصطلاحات، ترقی، روشن خیالی، آزادی اور مساوات کہلاتی ہیں۔ایسےاصطلاحات کے معانی، جو کہ ھمیشہ ‘پہلا’ متعین کرتا ہے ‘دوسرے’ کے لیے سوائے احساس کمتری، تقلید اور اپنی تاریخ سے نفرت کے علاوہ کچھ بھی تخلیق نہیں کرتی اور اسی علمیاتی جبر سے ‘دوسرے’ کا ایسا شعور بنایا جاتا ہے کہ اُس شعور میں مثالی تہذیب خود مغربی تہذیب قرار پاتی ہے لیکن اِس مثالی تہذیب کو وہ اپنے سماج میں بدقسمتی سے باعمل نہیں بنا سکتا (کیونکہ یہ جبری طور پر درآمد شدہ ایک طرز حیات ہوتا ہے، جس کی’ پسماندہ ‘سماج کی تاریخ اور جغرافیہ سے کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہوتا) اور اس شعور کی دوسری حیثیت یہ رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے ‘پسماندہ’ سماج میں رہتے ہوئے جن چیزوں پر عمل پیرا ہوتا ہےاُس سے لازماََ نفرت کرنے کا مرتکب ہوجاتا ہے۔یہ ‘پہلے’ کی قائم کردہ اصطلاحات اور ان کےمعانی کا وہ فریب اور جبر ہے جس میں رہتے ہوئے ‘پہلے’ کی اصل اور بھیانک چہرے کی حقیقت ‘دوسرے’ کے لیے التواء میں رہتی ہے۔ ان اصطلاحات کی حیثیت چونکہ غیر فطری اور غیر تاریخی ہوتی ہے کیونکہ ان کے وجود کے قیام کے لئے عالمی استعمار کا طاقت،ٹیکنالوجی، سائنس اور دولت کارفرما ہوتی ہے۔ اور ان اصطلاحات کے اندرونی معانی کا تعین چونکہ ‘دوسرے ‘ کی تذلیل کے بغیر ممکن نہیں اس لیے ترقی ،آزادی اور مساوات کو متعین کرنے کے لیے پسماندگی، غلامی اور بد تہذیبی کا سہارا لینا لازمی ہوتا ہے۔استعماری اقوام کی مادی ترقی کی شاں و شوکت بھی پسماندہ اقوام کی لوٹ ماری پر قائم ہے اس لیے اس حقیقت سے تاریخ اور فلسفے کے حقیقی طالب علم کے لیے انکار کرنا ممکن نہیں۔ اس تناظر میں اپنی تاریخ کو گالی دینا ،اپنے تہذیب سے نفرت کرنا، اپنے قوم کو مغربی منہاج میں دیکھنا، اپنے تشخص کو پسماندہ سمجھ کر اس سے شعوری اور غیر شعوری طور پر برآت کا اعلان کرنا، اپنے حاضر و موجود کو استعماری علمیت و طرز حیات پر قربان کرنا یہ سب ایک نوآبادیاتی ذہنیت کے شاہکار ہیں جو استعماری علمیاتی و مادی جبر کا پیداوار ہیں اور اس نو آبادیاتی ذہنیت کو صحیح سمجھنا عقل اور حقیقت پسندی سے دور ہو جانے کے مترادف ہے۔
(جاری ہے)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں