اے شب کے پہریدارو
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ ماں دنوں کا حساب کیسے رکھے؟ کیا وہ ماں جانتی ہے کہ راشد حسین کو گم ہوئے تین سال بیت گئے؟ کیا وہ ماں یہ بات جانتی ہے کہ وہ اب کبھی نہیں لوٹے گا اور اگر لوٹے گا بھی تو کب؟ اور وہ ماں کرے بھی تو کیا؟ اور وہ ماں کیا کر سکتی ہے سوائے ان تصویروں کو دیکھ کر جن تصویروں میں یا تو راشد مسکرا رہا ہے یا ماں اسے تک رہی ہے۔ باقی تو اس ماں کے پاس کچھ بھی نہیں۔اس ماں کا کوئی قصور نہیں اگر قصور ہوگا بھی تو اس راشد بلوچ کا پر اس کی سب سزا وہ ماں جھیل رہی ہے، جسے کچھ علم نہیں جسے کچھ پتہ نہیں۔ جو بس ایک معصوم ماں ہے جسے سال تو کیا پر دن بھی یاد نہیں رہتے اب جب راشد نہیں تو اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ یہ کیسا ملک ہے اگر کوئی غیر ملکی جاسوس پکڑا جاتا ہے تو بہت دور اس کی ماں اور محبوبہ کو بلایا جاتا ہے۔اس جاسوس سے ملایا جاتا ہے جا تے ہوئے وہ پھر بھی اپنے لبوں پر شکایت بھری مسکراہٹ لیے جا تے ہیں۔ تو اس ماں نے کیا قصور کیا ہے جس کا بیٹا جاسوس نہیں تھا۔
وہ تو مسکین ماں کا مزدور بیٹا تھا۔
اس نے جہاز کا پہلا سفر کسی عیاشی کے لیے نہیں پر اپنے بدن پر ظلم کرنے کو کیا تھا
وہ باہر کسی گوری کے عشق میں مبتلا ہو کر نہیں گیا تھا
وہ باہر دل فریب مناظر دیکھنے نہیں گیا تھا
وہ تو سب کا جہنم جیسا پیٹ بھرنے گیا تھا
وہ بلند و بالا عمارتیں نہیں پر وہ مال بردار گاڑیاں دیکھنے گیا تھا جن گاڑیوں میں اسے مال لوڈ کرنا تھا
وہ کسی پُرعیش خوشبو بھرے کمرے میں سونے نہیں گیا تھا
کون جانتا ہے کہ اس کی صبحیں کیسی تھیں اور شامیں کیسے تھیں
پر ہم یہاں پاکستان میں جانتے ہیں کہ اس ماں کی راتیں کیسی ہیں!
وہ ماں جو اسے تلاشتی ہے روتی ہے پھر گلابی دھوپ کے دنوں میں دھول آلود پیروں کے ساتھ کسی دیوار کی اُوٹ لیکر بیٹھ جاتی ہے۔
اس ماں سے دنوں کا حساب کیسے رکھا جائیگا جو بس اتنا جانتی ہے کہ اس کا بیٹا ملک سے باہر گیا پھر لوٹا ہی نہیں۔پر اس ماں کو دوسرے لوگ بتا تے ہیں کہ راشد کو گم ہوئے ایک چار بیت گئے
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ اس ماں کے لیے بس ایک چار ہی تھے؟
اور چار سال کیا ہیں؟
کیا کوئی جانتا ہے کہ ہجر کا ایک لمحہ کیا ہوتا ہے؟
اور اگر اس ہجر کے لمحے میں درد کا بھی سایا ہو تو پھر؟
وہ ماں بھی ہجر بھرے درد کا ساماں لیے کراچی آئی ہے کہ کوئی تو اس کی ان آنکھوں کو دیکھے جن آنکھوں میں اذیت،انتظار،خوف اور دکھ کا موسم ٹھر سا گیا ہے۔پر اتنے بڑے شہر میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ ماں دیوار کی اُوٹ لیے کسی تلاش رہی ہے اور اب کیوں تھک کر بیٹھ گئی ہے۔
راشد بلوچ کلبھوشن یادیو نہیں
اور وہ ماں اور اس کی سکھی کلبھوشن کی ماں اور محبوبہ نہیں
تو پھر بھی وہ درد کا دستان کیوں بنی ہوئی ہیں؟
کیا اس دوکروڑ شہر
تین کروڑ صوبے
اور بائیس کروڑ ملک والی آبادی میں
کوئی ایسا نہیں جو پوچھے کہ راشد حسین بلوچ کہاں ہے؟
جس کے لیے ماں رو رو کر اندھی ہو رہی ہے اور
اس کی محبوبہ اس کی راہ تکتی ہے!
کاش کوئی جان پائے
اس ماں کی نیند ہی نہیں
پر خواب پر بھی پہریدار ہیں
سپنے پہروں کے نیچے
پیروں کے نشاں پہروں کے نیچے
بس درد ہیں
جو دامن گیر ہیں
اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔اور
’’اے شب کے پہریدارو!
صبح جب دن چڑہے تو
میرے خوابوں کو
سورج سے ناپنا‘‘
سمجھ رہے ہونہ؟
سورج کا سفر
ناتمام۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کا درد نا تمام!
نہ سورج ٹھہرے
نہ ماں کا درد ٹھہرا
نا تمام۔۔۔۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں