مصری خان کھیتران کی سیاسی اور مسلح جدوجہد – صدیر بلوچ

580

مصری خان کھیتران کی سیاسی اور مسلح جدوجہد

تحریر: صدیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس دنیا میں ہزاروں انسان پیدا ہوتے اور مرجاتے ہیں ۔

ایسے انسان بہت کم ہوتے ہیں جوکسی مقصد کیلئے جیتے ہیں اور اپنی زندگی ایک عظیم مقصد کےلیے قربان کرجاتے ہیں۔ اورایسےہی لوگوں کویہ دنیا ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ایسی شخصیات جو گمنام ہوجاتی ہیں لیکن ان کی روشنی پھرکسی نہ کسی کونےسے نمودار ہوتی ہے اور ان کی اہمیت اور انکی قربانیوں کو یاد کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہےکہ دنیا میں وہی معاشرے اور قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں برطانیہ کے خلافتحریک آزادیِ بلوچستان کے ہزاروں گمنام ہیروز میں سے ایک مصری خان کھیتران بھی ہیں، جس کی زندگى پر سب سےکم لکھا گیا،مصری اپنے وقت کے یوسف عزیز مگسی سمیت تحریک کے بانیوں میں سےہیں جوبذات خود ایک سپاہی کی حثیت سےاس جنگ میںشامل ہوا۔

مجھےنہیں معلوم کہ مصری خان کہاں پیدا ہوا ، کب پیدا ہوا، کب تعلیم سے فارغ ہوا، اس لیے میں ان سطور میں مصری خان کا سوانحخاکہ پیش نہ کرسکوں گا، میں مصری خان کو جس قدر بھی جانتا ہوں، اس وجہ سے جانتا ہوں کہ اس نے بلوچستان کے ایک بہادرسپوت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انگریزوں کی استبدادی حکومت اور بلوچستان پر ان کے قبضے کے خلاف مسلح اور سیاسی جدوجہدکرکے سرفروشی اور حب الوطنی کی نئی تاریخ رقم کی۔

مصری خان کھیتران حاجی کوٹ کا رہنے والا تھا ۔ وہ کھیترانوں کے سردار خیل طائفہ سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس كو انگریزوں اور اسکے نظام سے شدید نفرت تھی ۔اور وہ اس کا برملا اظہار کرتا تھا اور انگریزوں کے خلاف ہر کاروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔

*مصری خان کی مسلح جہدوجہد*

مصری خان کھیتران رکھنی پوسٹ پر لیویز جمعدار  تھا۔ انگریز کے بقول وہ بہت ہی اعلی کریکٹراور اثر والا آدمی تھا۔ یہ بھی انگریزکی اطلاع ہے وہ بہت سال پہلے کابل پناہ گزین رہا تھا اور 1905 میں وہاں سے واپس آگیا ۔ اس نے 27 فروری 1918 کو لیویز کا بڑاعہدہ چھوڑ دیا اور یکم مارچ کو مری قبائل کے ساتھ جاملا جو پہلے سے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔

ایک خفیہ خط مورخہ 20 مارچ 1918ء کوئٹہ ( ڈوبس کی طرف سے گرانٹ ) کو کہا گیا ہے کہمریوں کی گڑبڑ مارچ 1918 کے پہلےپندرہ دنوں میں جاری رہی اور بارکھان کا کھیتران قبیلہ بھی ان کے ساتھ شامل ہورہاہے ۔ مسٹر انڈریو اپنی پنجاب بارڈر پولیس ،لغاری سردار اور ان کے سواروں کے ہمراہ 28 فروری 1918ء کو بارکھان پہنچ چکے ہیں۔

اس حرکت نے کھیترانوں اور مصری خان ( قائم مقام کھیتران سردار بختیار خان کے بھائی ) کو غصہ دلادیا اور انہوں نے فورٹ منروکے قریب لیویز تھانے کو آگ لگادی اور وہاں جمع کئے گے پاندوں کی رائفلیں قبضہ کر لیں۔ پھر لوہارنی مری کا ایک گروہ ان سے آملااور انہوں نے بارکھان میں تحصیل پر حملہ کیا اور خزانہ قبضہ کر لیا۔ اسی دوران مریوں نے سندھ پشین سٹیٹ ریلوے کو نقصانپہچانے کی دھمکی دی (اسے پانیزئی اور دیگر پٹھان لیویز نے تحفظ دیا) انہوں نے سبی ٹاؤن کے دیہاتوں سےمویشی ، اونٹ اور بھیڑبکریاں لوٹیں اور تور خان فوجی اڈے پر حملہ کیا آخر کار جنرل مری تادیبی فورس کے ساتھ دکی پہنچے اور حملہ کرنے والی مریگروہوں نے اپنے ملک کی طرف بڑھنا شروع کیا ۔

کوئٹہ سے 14 اپریل کو لکھے گئے ایک خط میں ڈوبس نے 15 مارچ 1918 کو فورٹ منرو پر مری کھیتران حملے کی اطلاح دی ۔برطانوی فوجوں نے کئی مری اور کھیتران دیہاتوں کو جلا دیا ۔ ان کے مویشی قبضے میں لئے ، جہازوں سے کاہان پر بمباری کی ۔کھیتران نے اپنے قائم مقام سردار بختیار خان کے زریعے غیر مشروط طور پر فرمانبرداری قبول کی ۔

کھیترانوں کے شرائط کا اعلان جنرل ہارڈی نے7 مئی 1918ء کو کیا اور انہوں نے کہا کہ  مصری خان وہ واحد نمایاں شخص رہ گئےہیں جنہوں نے اطاعت قبول نہیں کی۔

20 جون 1918 ء کو خبر ملی کھیتران باغی مصری خان کندھار پہنچ گے ہیں جہاں سے گورنر نے اسے کابل بھیجا ۔اسی دوران جون1918 ء میں ہرنائی میں سرداروں کے خصوصی جرگے کا اجلاس ہوا ۔ جس میں متفقہ طور پر مری کھیترانوں کو بغاوت کے لیےقصوروار ٹہرایا گیا ۔

مسٹر ڈوبس نے  مری ۔ کھیتران شورش اور متصل افغان قبیلوں میں موجود انتشار کی درج زیل ممکنہ وجوہات بتائی ہیں ۔

1۔ انگریزوں کے متعارف کردہ سرداری نظام سے عام لوگوں کی ناپسندیدگی ۔

2۔ روس کے اشتراکی انقلاب کے مظطرب اثرات ۔

3۔ ہمسایہ مرکزی ایشیاء فارس میں معاشرے کے انتشار کے بلوچستان پر اثرات۔

4۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی فوج کو کمزور سمجھنا ۔

5۔ افغانستان اور سندھ سے برطانوی مخالف مذہبی پروپیگنڈے کا برٹش بلوچستان پہچنا ۔

6۔ بقول صورت خان مری مشہور شاعر رحیم علی کے مطابق اس بغاوت کی مرکزی وجہ انگریزوں کا حاکمانہ رویہ تھا ۔

*مصری خان کھیتران کی سیاسی جہدوجہد*

1920 میں جب روس کی انقلابی حکومت نے ولادی میرایلیچ لینن کی سربراہی میں آزربئجان کے دارالحکومت باکو میں ایک بینالااقوامی کانفرنس طلب کی اس میں دنیا بھر کے قوم پرست تنظیموں اور پارٹیوں کے 1891 نمائندوں نے شرکت کی تو مصری خانکھیتران بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کانفرنس میں شامل ہوے۔ بلوچ انقلابی وفد نےمصری خان کھیتران کی قیادت میں روس کے انقلابی قائد لینن سے ملاقات کی اور انہیں بلوچستان کے حالات کے بارے میں تفصیلسے آگاہ کیا۔ انہوں نے بلوچستان میں

انقلابی لیٹریچر کو مقامی زبانوں میں ترجمعہ کرکے کابل کے زریعے بلوچستان پہنچانے کے احکاماتِ دئیے ۔اور اس مقصد کی خاطرمصری خان اور اس کے ساتھی کافی عرصے تک کابل میں مقیم رہے اور یہاں سے بلوچستان کے انقلابییوں کی تربیت کےلیے روس کےانقلابی حکومت کے تعاون سے بلوچستان میں انقلابیوں اور انقلابی مواد پہنچانے کا بندوبست کیا ۔

باکو کانفرنس کے بعد بلوچ انقلابی وفد کابل پہنچا جہاں انکا رابطہ شاہ امان اللہ خان اور افغانستان کے وزیرخارجہ محمد ترزئی کےساتھ ہوا انہوں نے بلوچستان کو آزاد کرانے کے لیے ایک انقلابی تنظیم قائم کرنے کی کوشش کی ۔ برطانیہ کی ان سرگرمیوں پر کڑینظر تھی بعد ازاں شاہ نے بھی برطانیہ کے دباؤکے تحت کسی مادی مدد کرنے سے انکار کردیا مزید برآں ان کےلیے بلوچستان کےاندرونی حالات بھی سازگار نہیں تھے جہاں برطانوی فوج کو حالات پر مکمل قابو حاصل تھا بہرحال ان کے انقلابی خیالات نےبلوچستان کی سیاست پراثرات چھوڑے ۔

طویل عرصے تک میر مصری خان کابل میں ہی مقیم رہے اور وہیں سے بلوچستان کے انقلابیوں کے ساتھ رابطے کرتے رہے ۔اوربلوچستان کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ بلوچ وفد نے ہندوستان کے انقلابیوں کے ساتھ کام کرنے سے انکارکردیا۔ مصری خان بلوچستان کی جداگانہ تشخص اور حیثیت کو ہندوستان سے الگ سمجھتا تھا ۔ اور ہندوستان اور بلوچستان پربرطانوی غلبہ کو الگ الگ تناظر سے دیکھتا تھا ۔

وسطی ایشیاء میں بالشویک انقلاب کے استحکام نے  بلوچوں کے کردار اور باکو کانفرنس میں وفد کی شرکت کے باعث بلوچستان کیسیاست پر گہرے اثرات مرتب کیئے ۔ عنقاء کے مطابق سویت، ترکمانستان میں بلوچ آبادکاروں کے فلاحی منصوبے ، بلوچ انقلابیوں کےساتھ سوویت یونین کے تعاون اور لینن کے طرف سے کابل میں سوویت سفارت خانے کو بلوچستان کی تحریک آزادی کے تعاون کیہدایت کے باعث بلوچستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔

بلاشبہ مصری خان کھیتران برطانوی عہد میں تحریک آزادی بلوچستان کا موثر ترین کردار تھے جن کی سرگرمیاں آخر تک جاریرہیں۔ انہوں نے برطانوی سامراج کے بلوچستان پر تسلط کے خلاف مسلح جہدوجہد بھی کی اور بین الااقوامی برادری میں بھیبلوچستان کا مقدمہ لڑا ۔ انہوں نے ترقی پسند سوچ کو بلوچستان کے قوم پرست حلقوں میں پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ۔یقیناً مصری خان کھیتران اور ان کی جدوجہد خراجِ تحسین کے قابل ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں