بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما منظور پشتین کیجانب سے جاری کردہ بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جہاں خطے کے تمام اقوام قبضہ گیریت جیسے ناسور مرض کا شکار ہیں تو قوموں کےلیے یکجہتی اور مشترکہ جدوجہد نا گزیر بنتی جا رہی ہے۔ مظلوم اورمحکوم اقوام خود پر ہونے والے جبر کا ادراک رکھتے ہوئے قبضہ گیر کا کاسہ لیس بننے سے گریز کریں اور قبضہ گیرکی طاقت کا محور بن کر ایک دوسرے اقوام کی سرزمین پرہونے والی استحصالی عمل کا حصہ بننے سے گریزاں رہے۔
انہوں نے کہا کہ منظور پشتین کی جانب سے پشتون نوجوانوں کو بلوچستان میں جاری ریاستی جنگ کا حصہ نہبننے کے حوالے سے پیغام انتہائی مظبوط سیاسی موقف اور وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ قابض پاکستانی ریاست اس وقت ایک بڑی تعداد میں پشتون نوجوانوں کو ایف سی میں بھرتی کرکے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے لیےاستعمال کررہا ہے۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں “پشتون فوجی” بلوچ سرزمین پر پاکستانی قبضہ گیریت کوطوالت بخشنے کےلیے کاسہ لیس کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں منظور پشتین کی جانب سے موقف نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ سیاسی میدان میں ایک نئے بحث مباحثے کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت محکوم ومظلوم عوام نہ صرف ایک دوسرے کی درد کو سمجھ رہے ہیں بلکہ جبر اور ظلم کے خلاف یکجہتی و یکمشتی کامظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ مصنوعی ریاست جس کی بنیادیں دروغ گوئی پر قائم ہے جس نے مختلف اقوام کوطاقت کے زور پر فیڈریشن کا حصہ بنایا اور اپنی قبضہ گیریت کو جلا بخشنے کےلیے مظلوم اقوام کو ایندھن کے طورپر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی آر ہی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ ، پشتون اور سندھی اس وقت محکوم اقوام ہیں جن کی سرزمین پر ریاست پاکستان قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کےلیے مختلف پالیسیوں کے تحت استحصال کررہا ہے۔ قبضہ گیر بلوچ سرزمین پر اپنی استحصالی پالیسیوں میں تیزی لانے کےلیے ہمیشہ ہی سے دوسرے محکوم اقوام کے افرادی قوت کو بروئے کار لاتا رہاہے اور بدبختی سے محکوم اقوام کے لوگ خاص کر نوجوان فوج میں بھرتی ہوکر ریاست کی بلوچ نسل کش پالیسی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ قبضہ گیر ہمیش ہی مقبوضہ اور مظلوم اقوام سمیت پسے ہوئے طبقے کو جنگ کی ایندھن بناتا ہے اور اس عمل کا مقصد محکوم اقوام کی طاقت کو قبضہ گیر کے بجائےدیگر محکوم اقوام کے خلاف استعمال کرنا ہے تاکہ قبضہ گیر کی قبضہ گیریت کو دوام بخشا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی تنخواہ پرکام کرنے والے مظلوم و محکوم اقوام کے ساتھ پنجاب کے پسے ہوئے طبقے کو بلوچستان میں ایک منصوبے کے تحت جنگ کا حصہ بنایا جا چکا ہے جو اقوام کے درمیان دوریاں اور قبضہ گیریت کی طوالت کا باعث بن رہی ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا کہ مظلوم اور مقبوضہ اقوام کےلیے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ قبضہ گیر کےگھناؤنے پالیسیوں کو بھانپتے ہوئے ایسے کسی عمل کا حصہ نہ بنیں جو دیگر محکوم اقوام کی استحصال اور جبرپر مبنی ہو۔ پشتون اور سندھی اقوام سمیت پنجاب کے ایک مخصوص طبقے کو جہاں ایک جانب تمام طرز کےروزگارکے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے وہیں انھیں قبضہ گیر اور استحصالی لشکر کا حصہ بنا کر بلوچستان بھیجاجاتا ہے جہاں یہ افراد بلوچ سرزمین کی استحصال ، بلوچ عوام پر جبر، بلوچ عورتوں کی آبروریزی،ننگ و ناموسکی پامالی اور بلوچ قوم کی نسل کشی میں برابر کے شریک کار ہوتے ہیں۔ لہذا اب وقت کی ضرورت ہے کہ بلوچ سمیتتمام محکوم اقوام کی سیاسی پارٹیاں اس خاص نقطے پر اپنے اپنے خطے میں نوجوانوں کو سیاسی حوالے سے بیدارکرکے ریاستی ایندھن کے طور پر استعمال ہونے سے روکنے کے لیے سیاسی بحث کا آغاز کریں۔ تمام محکوم اقوامسمیت بلوچ نوجوان بھی معروضی حالات کا ادراک رکھتے ہوئے پاکستانی افواج جس میں ریگولر آرمی، ایف سی،رینجرز، نیوی اور ائیر فورس میں بھرتی ہونے سے اجتناب برتے یا بلوچستان میں ڈیوٹی دینے سے انکار کریں۔ جبکہ تمام محکوم اقوام آپس میں اتحاد و یکجہتی کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ منظم کرکے اس ظلم و جبر کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریں۔