طلباء سیاست اور بلوچ طلبا
تحریر:گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جاپان میں طلبہ کی تحریک کا آغاز دسمبر 1918 میں یونیورسٹی آف ٹوکیو روکی ایسوسی ایشن کے ساتھ ہوا۔ اس پس منظر میں پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے گھریلو سرمایہ داری کی نمو ، نیم جاگیردارانہ پیداواری تعلقات کا بحران ، سوشلزم جس نے اپنے اثر و رسوخ کو مختلف عوامل سے متاثر کیا، جیسے جمہوریت کی عالمی رجحان اور روسی انقلاب کی کامیابی وہاں کمیونسٹ افکار کا چرچا تھا۔
1917 میں سانزو نوساکا (تیسو) کی ہدایت پر یونیورسٹی کے طلباء اور کالج کے طلباء پر مشتمل ایک مطالعاتی گروپ تشکیل دیا گیا جو معاشرتی مسائل اور برادرانہ ممبروں میں دلچسپی رکھتا تھا (1918 میں کیوٹو میں)۔ ایسے رضاکاروں کا ایک مجموعہ جو ٹوکیو امپیریل یونیورسٹی میں سوشل سائنس ریسرچ یا سوشل موومنٹ کی خواہش رکھتے تھے۔ روکی پہلی طلباء پر مرکوز تنظیم تھی ، حالانکہ ابتدا میں اس میں گکو سانو ایٹ ال کے فارغ التحصیل شامل تھے۔ اور مسانوسوکے وطنان کے کارکنان نئی آنے والی جماعت انسانیت کی آزادی کے نئے جذبے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کررہی تھی اور “جدید جاپان کی عقلی یادداشت کی تحریک کی پیروی” کے فروغ کے لئے کوششیں کررہی تھی۔
ایک برانچ آفس قائم کیا گیا اور کامیڈو شنجن سیلولوڈ ورکرز ایسوسی ایشن کا اہتمام کیا گیا۔ 19 میں ، واسیڈا یونیورسٹی اناجیرو آسنوما ، ریوچی انامورا اور دیگر کے طلباء نے بلائنڈرس الائنس تشکیل دیا ، اور آنے والوں کے جواب میں جمہوریت پھیلانے کے مقصد سے کیمپس میں پروموشن کو فروغ دیا۔ بلڈرز الائنڈر نے مقامی نوجوانوں (خاص طور پر دیہی علاقوں) کو بھی فروغ دیا۔
یونیورسٹی کی سطح پر طلبا کی سرگرمی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کی یونیورسٹی کی ہے۔ پیرس اور بولونہ کے طلباء نے 13 ویں صدی کے اوائل میں ہی اجتماعی اقدامات کیے ، خاص طور پر شہر اور گاؤں کے مسائل پر وسیع تر سیاسی معاملات پر طلباء کے احتجاج کی ایک طویل رقیب بھی ہے جوزون راجکماری کوریا میں ، سنگوکونوان کے 150 طلباء نے 1519 میں کیمیو سے پاک ہونے پر بادشاہ کے خلاف بے مثال مظاہرے کیے۔
طلباء کے زیر اہتمام ایک سماجی اور سیاسی تحریک۔ اس میں مشقیں شامل تھیں جن کا مقصد طلبہ کی زندگی کے حالات کو بہتر بنانا تھا۔ طلبہ کی تحریک کی وضاحت طالب علم کی معاشرتی حیثیت اور کردار اور ایک مخصوص معاشرے کی ساخت سے ہوتی ہے جس میں طالب علم معاشرتی طور پر ایک خاص پرت کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ طلباء کی تحریک کی تاریخ اعلی تعلیم کے پھیلاؤ کی وجہ سے طلباء کی تعداد میں اضافے کے ساتھ شروع ہوئی تھی ، اور طلباء ایک ہی سماجی تہہ کی حیثیت سے موجود ہوسکتے تھے۔
ٹراٹسکی کا کہنا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔ طلبہ اپنی اس نسبتاً آزادانہ کیفیت میں سماجی حرارت کا بیرومیٹر ہوتے ہیں اور معاشرے کی تہوں میں چلنے والی کیفیات اور عوامل کی غمازی کرتے ہیں۔
دنیا کے جمہوری ملکوں میں طلباء سیاست کو سیاست کی نرسری کہاجاتا ہے جہاں پڑھے لکھے ماحول میں اپنی بات کرنا اور خدشات کا کھل کر اظہار کرنا تعلیمی اداروں کا خاصہ ہوتا ہے تاہم پاکستان میں طلبہ کے لیے اپنے حقوق کی بات کرنا آسان نہیں۔
ملک میں اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی تو جنرل ضیا الحق کے آمرانہ دور میں لگی لیکن اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتیں بھی دعوؤں کے باوجود طلبہ تنظیموں کو بحال نہ کر پائیں۔
جمہوریت سے وابستہ طبقہ نوجوانوں کے حقوق و موثر قانون سازی کی بات تو کرتا ہے مگر عملا اقتدار ملنے پر تمام کئے وعدے بھول جاتا ہے پاکستان میں شفاف جمہوری استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ گزشتہ 34سے طلبہ یونینز پر عائد جبری پابندی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں طلبہ یونینز کو نوجوانوں کا انکا آئینی حق تسلیم کرتی ہیں لیکن حکومت بنانے کے بعد اس مسئلہ سے پہلو تہی سے کام لیتی نظر آتی ہیں۔ 9 فروری 1984ء کو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر عائد کی جانیوالی پابندی کیساتھ ہی تعلیمی اداروں میں طلباء کی نشو ونما، بہبود اور صحت مند مباحثے کا کلچر ختم ہوگیا۔
اس غیر آئینی اقدام کے باعث ہم تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور نوجوانوں کی غیر تدریسی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت سے محرومی کا بحیثیت قوم نقصان اٹھا رہے ہیں۔ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی جانب سے لگائی جانیوالی پابندی کو جمہوریت کے چیمپیئن حکمرانوں نے وعدوں کے باوجود بھی ختم نہ کیا۔ 1970ء سے 1980ء کی دو دہائیوں میں طلباء یونینز کے پلیٹ فارم سے سیاست، سائنس، طب، انجینئر نگ، ادب، صحافت سمیت ہر شعبے میں ملک کو بہترین قیادت اور غیر معمولی لوگ میسر آئے۔ طلبہ یونینز کی تربیت گاہوں سے نکلنے والے افراد نے دنیا بھر میں اپنی صلا حیتوں کا نہ صرف لوہا منوایا بلکہ ملک کے لئے گراں قدر خدمات بھی سر انجام دیں۔
طلبا یونینز پر محض سیاست کرنے کا الزام عائد کیا جا تاہے اور ان طلباء کی سیاست میں شمولیت مناسب نہیں سمجھی جاتی۔
لیکن انہی یونینز کے پلیٹ فارم سے اپنے عہد کے سیاسی، فسلفیانہ اور سائنسی موضوعات اور نظریات پر صحت مندانہ مباحثے، آرٹ اورکھیلوں کے مقابلہ جات، ادبی مشاعرے منعقد ہوتے تھے الغرض طلباء اپنے عہد کی دانش سے جڑے رہتے تھے۔ انہیں ادراک ہوتا تھا کہ عالمی ممالک کے درمیان کیا تضادات اور اختلافات چل رہے ہیں علاقائی اور ملکی سیاست میں کیا صف بندی ہے۔
اپنے حقوق کیلئے کیسے آواز بلند کرنی ہے۔ان کے درمیان ہر وقت مقابلے کی صلاحیت اور قیادت کرنے کا جوہر مو جود ہوتا تھا۔ وہ اختلافات کو گفتگو کے کلچر سے با آسانی حل کرنے کا ہنر رکھتے تھے لیکن آج تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ کی بڑی تعداد مذکورہ سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں۔تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات کی فضا میں بے چینی، انتہاپسندی، عدم برداشت، لسانیت، صوبائیت پر مبنی پر تشدد رویوں نے جنم لیا۔
دنیا کے تمام طلباء تحریکوں میں بلوچ طلبا تحریک سرفہرست اور الگ جگہ رکھتی ہے جہاں طلبا نے مختلف ادوار میں بہت سی اذیتیں سہی ہیں جنرل ضیاء الحق کے نقش قدم پر چلنے والے جنرل مشرف کے دور میں بلوچ طالب علموں کو اغواء کیا گیا بلوچ طالب علموں کے سرکلوں پر حملے کئے گئے بہت سے طلباء قتل ہوئے اسی کا تسلسل آج تک جاری و ساری ہے۔
اس وقت بلوچستان یونیورسٹی کے داخلی راستے پر جہاں طلباء و طالبات دھرنا دیئے بیٹھے ہیں وہاں مختلف بینرز اور مطالعہ پاکستان کے لاپتہ طالب علمز سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کے تصویریں آویزاں ہیں طلباء کا دعوی ہے انہیں نومبر کے شروعات میں یونیورسٹی ہاسٹل سے لاپتہ کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے 2018 اور 2019 میں بلوچستان یونیورسٹی میں اسکینڈل کے وقت جب کورٹ نے اس وقت کے وائس چانسلر سے سوال کیا کیمرے کیوں لگائے گئے ہیں اس کا جواب تھا جی سیکورٹی کا مسئلہ اس لیے ہم نے خفیہ کیمرے لگائے ہیں جب سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو اغوا کیا جاتا ہے تو بدقسمتی سے ان کا کیمروں کا رخ پہلے کی طرح لیٹرینوں اور فیمیل طالبات کے آنے جانے والی راستوں کی طرف ہوتا ہے۔
بلوچستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے طلبا سیاست پر پابندی لگائی گئی ہے کبھی کبھار طلباء رہنماؤں کے لیے یونیورسٹی کے مین گیٹ بند کیا جاتا ہے کبھی انہیں مختلف حربوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔
تعلیمی ادارے کے سربراہ سے لیکر نیچے تک سیاست چلتی رہتی ہے جب طالب علم سیاست کی بات کرتا ہے سیاسی عمل اور علمی آگہی پھیلانا شروع کرتا ہے اپنی حق کی بات کرتے ہیں تو اس کے لیے قدغن ہے یہاں پر سیاست گناہ سیاست گالی ہے بھئی طلباء سیاست سے اتنا خوفزدہ کیوں۔
یونیورسٹی بلوچستان کے حالیہ اسیکنڈل سے بہت سے طالبات نے اپنی ڈگری ادھوری چھوڑ کر گھروں کو واپس لوٹے اس وقت کے کرپٹ وی سی کو اضافی چارج دے کر لاہور بیجھا گیا بلوچ اور پٹھان طالبات کی عزت کو بیج کر موصوف کو لاہور یونیورسٹی میں ایک اور پوزیشن پر براجمان کیا گیا ۔
اس دھرنے پر بیھٹے دھرنے کو لیڈ کرنے والے بی ایس او پجار کے مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ کا کہنا ہے یونیورسٹی اس وقت مختلف مسائل کا آمجگاہ بن چکا ہے بنیادی بات یونیورسٹی انتظامیہ نے یونیورسٹی ایکٹ کو ملکل طور پر نظرانداز کیا ہوا ہے اور غیر متعلقہ افراد کا اپائٹمنٹ کیا جارہا ہے ایکٹ کے رول میں کنٹرولر کا ایکٹ کے مطابق ٹیسٹ اور انٹریو کے بعد اپائٹمنٹ ہوگا وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کا بھی یونیورسٹی ایکٹ کے تحت انٹریو ہونگے مگر تمام افراد کو بغیر ٹیسٹ انٹریو اپائٹمنٹ کیا گیا ہے۔
مسلسل یونیورسٹی ایکٹ کو پاؤں تلے روند کر ان کا اپائٹمنٹ کیا جارہا ہے ۔
سب بڑا مسئلہ یونیورسٹی کے احاطے میں ایف سی کی ایک کیمپ موجود ہے تمام طلباء و طالبات عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
سیاسی سرکلوں پر پابندی لگا دی گئی ہے کوئی بھی طلباء تنظیم اپنے سرکلوں پر کوئی ایکٹویٹز نہیں کرسکتا نا کوئی طلباء تنظیم اپنے سرکل پہ تنظیم کا فلیگ لگا سکتا ہے۔
زبیر بلوچ نے کہا اس وقت یونیورسٹی کیمپس میں 146 کیمرہ لگے ہوئے ہیں اور 290 کے قریب کیمرے یونیورسٹی ہاسٹلز گارڈن لائبریری کینٹین اور مختلف جگہوں پر لگائے گئے ہیں ناجانے اتنے کیمرے کس کو واچ کررہے ہوتے ہیں ان کیمروں کے سامنے سے طلباء کو اغوا کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے تمام محمکوں کے ایڈمیشن بیجھے جارہے ہیں ایچ ای سی پالیسی کے مطابق کوئی بھی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔
ان کا کہنا ہے ہائی کورٹ کا ایک ججمنٹ موجود ہے کہ یونیورسٹی سے سیکورٹی کو نکالا جائے مگر اب تک 300 کے قریب ایف سی کی نفری یونیورسٹی میں موجود ہے جن سے تعلیمی ماحول خراب ہوتا جارہا ہے۔
اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں اب کوئی طلباء سینکڑوں ریاستی اداروں کے اہلکاروں اور لاکھوں خفیہ کمیروں کے سامنے سے لاپتہ ہورہے ہیں مگر یہاں بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق جی اس وقت لوڈشیڈنگ تھا۔
دنیا کے تمام بڑی مزاحمتی تحریکیں طلبہ کی شمولیت سے ہی کامیاب ہوئی ہیں اس لیے جب طالب علم ’سرفروشی اور بازوئے قاتل‘ کی بات کرنے لگیں تو حکومت کو ان کے مطالبات پر گہری اور سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ کے مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو ملک میں کسی گھمبیر سیاسی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہمارے سر پر منڈلاتا رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں