بلوچی موسیقی کی عظیم ہستیاں
تحریر: میرین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پوری دنیا میں موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے اور موسیقی کا رقص کیساتھ بھی ایک گہرا تعلق ہے دنیا بھر میں موسیقی کا عالمی دن 21 جون کو منایا جاتا ہےٍ، اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو موسیقی کے ذریعے امن، محبت اور بھائی چارے کی زنجیر میں باندھنے کی ایک کوشش ہے۔
قدیم زمانے میں موسیقی کے وہ عالم جنہوں نے نت نئے راگ ایجاد کئے،ان میں بے مثال بندشیں اور ٹھمریاں، آج بھی مقبول ہیں۔
ایک معروف” گانے کے تحریر کار تگرے ایورین کا کہنا ہے کہ دنیا تک مظلوموں کی آواز پہنچانے میں موسیقی کا اہم کردار ہے” فلسطین میں بھی بہت سے عظیم گلوکار ہیں جو اپنی سریلی آواز سے موسیقی کے ذریعے اپنا پیغام پہنچاتے ہیں جس میں فلسطین کے غزہ پٹی سے تعلق رکھنے والا کمسن نوجوان گیارہ سال عبدالرحمٰن الشنطی نے ایک ریپ گانے میں فلسطین کے درد اور تکالیف ہزاروں لوگوں تک پہنچائی اور گلوکار محمد عساف بھی فلسطینیوں کیلئے بے حد مقبول ہیں۔
کردستان میں کرد خواتین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ہم دشمن کے حملے کا جواب انہیں نغمہ سنا کر دیتے ہیں، اس کی بعد ان پر گولیاں برساتے ہیں۔ اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آجائے، ’’اس کے علاوہ ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر بالکل نہیں‘‘۔
ترکی کے مشہور و معروف انقلابی گلوکار ہیلن بولیک ایک انقلابی موسیقی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ہیلن بولیک گروپ “یوروم” پر لگنے والی پابندی اور اس کے ارکان کی مسلسل گرفتاریوں کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال پر تھیں جو تادم بھوک ہڑتال کے 288 دن بعد انتقال کر گئی۔
مظالم کیخلاف اپنی آواز برسرپیکار کرنے کیلئے کئی طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں ہر کسی کا ایک اپنا الگ طریقہ کار ہوتا ہے آرٹسٹ، فنکار، شاعر، ادیب دانشور ، گلوکار، فوٹوگرافر اور بیشمار۔ بات رہی موسیقی کی جس میں کئی ساز و سامان ہوتے ہیں جو مجھ جیسے کم علم ایک ساز بھی ڈھونڈ نہ سکا تو آپ بتائیں موسیقی کے بارے میں مجھ جیسے ناعلم کے پاس کیا علم؟ بس کچھ سطحی ادراک ہے ہارمونیم، جو ایک قسم کا باجہ ہے جو بائیں ہاتھ سے ہوا کا سر ابھارتا ہوا دلوں کو مسرور کرتا ہے۔ اسکے کئی ٹاٹ ہوتے ہیں جس میں میرے عظیم دوست احسان عاجز نے بتایا تھا کہ “کومل سُر ، تیور سُر جس میں ہر شئے کی ایک الگ آواز ہوتی ہے۔” اسی طرح دمبورہ کی تاروں کا تال میل ایک منفرد سُر پیدا کرتا ہے، اسکو روحانی راگ بھی کہا جاتا ہے بلکہ پوری دنیا میں اسے امن کی دعاِعلامت بھی کہا جاتا ہے۔
بلوچستان کے موسیقی لڑ میں بیشمار گلوکار ملیں گے لیکن افسوس اس بات کا مجھ جیسے لاعلم کو خبر بھی نہیں ان ہستیوں نے جو اپنی زندگی مظلوم قوم کیلئے قربانی کر دی، یا کررہے ہیں بس دو چار کے ناموں سے واقفیت ہے نا جانے کتنے گمنام زندگی بسر کررہے ہیں یا زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں اور ان عظیم ہستیوں کو فراموش کرنا قومی المیہ ہی ہوگا جو سر و تال سے قومی شںاخت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
خداوندکریم کے بنائے ہوئے انسان جو بہت سی نعمتوں سے بھری ہے، جسے دیکھنے کیلئےآنکھیں،سوچنے کیلئے دماغ اور بولنے کیلئے زبان عطا کیاہوا ہے۔اسی طرح اس مٹی کے بچوں میں موسیقی کا شوق، جذبہ، جنوں سرشت سے موجود ہے اور اس گواڑخ مٹی نے آج بلوچ اور بلوچی لبزانک کیلئے مر مٹنے والے ہزار سپوت پیدا کئے ہیں پتہ نہیں میں کس کس کا نام لکھوں! اب تو چراغ کی روشنائی بھی ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
بلوچی زبان کے مایہ ناز گلوکار میر احمد، منحاج مختار اور میرل بلوچ اسی مٹی کے گواڑخ ہیں اوپر والے نے ان عظیم ہستیوں کو ایک سریلی صدائے نیم شبی سے بخشی ہے جنکی آوازوں میں ایک ایسا درد اور ایک ایسا جنون جنم ہے جو نیند کی آغوش میں سوتے ہوئے انسان کو بھی جگاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کردار زندگی کی انمول داستانوں کا محتاج ہی نہیں ہوتا کیونکہ ان کی بلندی ہمہ جہتی، آفتاب آمد دلیل آفتاب کے سر سے سرشار ہیں۔
ان تین ہستیوں نے پوری زندگی میں نا نازک اور نا وہ حسینائیں، جو دیکھنے میں نرم و نازک، سرخ گلابی ہونٹ، ان پہ کبھی نازاں نہیں ہوئے بلکہ انکے گیتوں میں وہ تخلیقی درد بھرا ہے جس میں وہ سنگلاخ پہاڑ، گواڑخ بھری زمین ، سنہری مٹی اور دھرتی کے بیشماررنگ!
یہ تین عظیم ہستیاں جب گانا گاتے ہیں تو ان کا دھیان صرف اور صرف اپنے فن پر ہی ہوتا ہے جو دھرتی کی امانت ہے۔ استاد منحاج مختار کے بہت سے مشہور گیت ہیں لیکن “وتن وتن کہ منی واھگیں مُرادانی،وتن وتن کہ پما سایگیں نیادانی، وتن وتن ما کنے داں کہ ساہ ءَ روت ءُ گیت بہت مشہور گیت ہے۔
بلوچی موسیقی میں استاد میر احمد واحد بلوچی گلوکار ہے جو بیشمار زبانوں میں گیت گاچکے ہیں لیکن اکثر وہ اپنی مادری زبان بلوچی ، براھوئی کو زیادہ ترجیحی دیتے ہیں استاد میر احمد میٹرک کے بعد بی ایس او میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو اس دوران بلوچستان کے کوچہ کوچہ میں بلوچ قوم کی غریبی درتگ پوچی، غلامی اور ظلم و بربریت کا وقت چل رہا ہوتا ہے بلوچی زبان کے نامور شاعر عطاشاد، مجید گوادری اور مبارک قاضی اور براھوئی میں لیاقت سنی، استاد فتع شاد اور منظور بلوچ کو اپنا آئیڈل مانتے ہیں۔
عطاشاد کا مشہور شعر ” ساہ کندن اور براھوئی کے لیاقت سنی فرق تقسیم اٹی گُم ءُ شان ءِ ننا ” شعر سے بہت متاثر ہوئے اور استاد کبیر صاحب انکے استاد مانے جاتے ہیں۔
جب میں نے اپنے قریبی دوست شاعر ، فنکار اور گلوکار ساول قندیل اور احسان عاجز سے موسیقی کے بارے میں کچھ پوچھا تو وہ موسیقی کیجانب مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ “موسیقی وہ شئے ہے جس کیلئے پوری زندگی بھر بھی لکھا جائے تو وہ کم کیونکہ نہ صرف انسان بلکہ کائنات میں جو شئے وجود رکھتی ہے اس کا موسیقی سے گہرا رشتہ ہے بلکہ سرشت سے قائم و دائم ہے موسیقی ہر شئے کو سکون، دنیا بھر میں موسیقی کو امن و محبت کا پیامبر بھی کہا جاتا ہے۔”
ساول قندیل کے مطابق استاد میر احمد میں بہت سی صلاحیتیں ہیں اس میں برداشت، مہر و دوستی کہیں یا آپ قوم دوستی اور زندہ پرست اس میں فطری طور پر موجود ہے کچھ ایسے بلوچی ردھم میں نا صرف میر احمد بلکہ استاد منھاج بھی،جب یہ دونوں راگ کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان دونوں کی خون جگر سے نمود ہوتے ہوئے ہزاروں غم جتوں کو چھوڑ کر بلکہ درجنوں کہانیوں میں ڈھل جاتے ہیں۔
ان تین عظیم ہستیوں کے گھر پر کئی بار ریاستی اداروں کی جانب سے چھاپہ اور خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانے بنایا گیا ہے۔ 31 اگست2018 کو استاد میراحمد کے جوانسال فرزند بلال احمد کو بھی لاپتہ کیا اور پھر بازیاب کیا اسی طری بلوچی زبان کے نامور گلوکار رفیق زمان، استاد خورشید بھی ان اندھیری کوٹیوں کا بھی شکار ہوئے استاد خورشیدکو استاد منھاج مختار کا استاد کہا جاتا ہے اور بعدازاں وہ بازیاب ہوئے اور رفیق زمان آج بھی تاحال لاپتہ ہے۔
اگر منھاج، میر احمد اور میرل بلوچ، فیض محمد بلوچ عرف فیضک کے وہ گیت ’’کیچے جنک سور لنٹاں‘‘مراد یہ کہ کیچ مکران کی حسینائوں کے ہونٹ سرخ گلابی اور نازک ہیں اسطرح کے گیت گا سکتے تو ریاستی سطح پہ ایک اچھا نام بھی کما لیتے اور مال و دولت بھی! لیکن انہیں اس سے زیادہ اپنی مٹی عزیز تھا، وہ مظلوم قوم کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔
بس میری دعا ہے کہ خداوند آپ لوگوں کو ہمہ وقت یکجہتی، مہر و محبت اور قوم دوستی کے آشوب میں سالم رکھیں۔
آخر میں ایک دانشور کے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے کہ “سینکڑوں فنکار، شاعر اور گلوکاروں کی زندگی ایک قندیل فروزاں بن کر ہماری ثقافت ” دود ءُ ربیدگ ” زبان اور بلوچ قوم کو نمیران کرنے میں قائم و دائم سے سر شار ہیں۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں