اختر مینگل سے کہنا سندھ کی بیٹی تمہیں یاد کرتی ہے ۔ محمد خان داؤد

228

اختر مینگل سے کہنا سندھ کی بیٹی تمہیں یاد کرتی ہے

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

دانیال تم دنیا کو الفاظ سے نہیں بھر سکے پر کچھ لوگوں نے تو دنیا کو دکھوں سے بھر دیا ہے!
پھر تم نے کیوں لکھا تھا کہ
،،لیکن جینا آسان نہیں
وہ لفظوں سے دنیا کو بھرنے
کی آرزو کے ساتھ
دنیا وہ زخم ہے جسے کسی ایک
شاعر کے لفظ نہیں بھر سکتے
میں جانتا ہوں
ایک روز موسم گدلا جائیں گے
چہرے ساکت ہو جائیں گے
شور تھم جائے گا
سارے دن
میرے اندر۔۔۔۔۔۔۔غروب ہو جائیں گے
میں مر جاؤں گا
اور دنیا لفظوں سے نہیں بھر سکوں گا!،،
میں بھی لفظوں سے دنیا کو نہیں بھر پاؤں گا۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے ساتھ سب دن ڈھل جائیں گے، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے خوابوں جیسے الفاظ کیا معنیٰ رکھتے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں تھک جاؤں گا،میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں بہت بھونکتا ہوں۔میں الفاظ کا کتا جو ٹہرا۔

پر میں ان کے لیے لکھوں گا،جن کے لیے کوئی نہیں لکھتا،میں ان کے لیے کہوں گا جن کے لیے کوئی نہیں کہتا۔ میں ان کے ساتھ ہوں جن کے ساتھ کوئی نہیں!
میں سردار اختر مینگل سے کہنا چاہتا ہوں
اس سے سے پہلے کہ سب صبحیں،سب راتیں،سب دن ڈھل جائیں
اس سے پہلے کہ موسم بدلیں اور ایک ہی موسم ہمیشہ کے لیے ٹہر جائے
ابھی تو بس وہ لوگ باقی ہیں جو تابوت بناتے ہیں
پر اس سے پہلے وہ لوگ بھی آکاش سے من وسلویٰ کی مانند برسنے لگیں جو تابوتوں میں موت بھرنے کی مزدوری کرتے ہیں!
اس سے پہلے کہ سب دن غروب ہوجائیں،اور نہ کوئی دن رہے اور نہ سحر کی امید
اس سے پہلے کہ کوئی ایسا بھی آجائے جو اس دنیا کو لفظوں سے بھرنے کی ناکام کوشش کرے اور اس کے اوپر بھی لفظوں کا کفن ڈال کر دفن کیا جائے
اس سے پہلے کہ بارشیں برسیں اور اس گھاس کو نمودار کرے جسے دیکھ کر اپنے یاد آ جاتے ہیں
اس سے پہلے کہ پھر بلوچستان میں الیکشن کا موسم آجائے اور وہ بہت ہی بڑی گاڑی میں سوار ہو کر ان گلیوں میں پھرا کرے جن گلیوں کے لیے دیوانے کہتے ہیں کہ
،،یہ گلیاں بھی مسافر ہیں ان کے بھی پیر ہوتے ہیں یہ گلیاں زمانے سے چل رہی ہیں پر ٹھرنے کے لیے!،،
پر وہ شرین جوکھیواور ماتم کرتی بوڑھی ماں تو کوئی گلیاں نہیں۔وہ وہیں ٹھیرنے کے لیے نہیں چلیں ۔اگر وہ ٹھٹھہ سے چلیں ہیں تو انہوں نے ایک مسافت بھی طے کی ہے۔لوگوں نے تو ان کے قدموں کی مسافت دیکھی جو کچھ کلو میٹر بنتی ہے۔پر کوئی ہے جو ان کے دکھوں کی مسافت دیکھے؟کوئی ہے جو ان کے دل کی مسافت دیکھے؟کوئی ہے جو ان کے اس انتظار کی مسافت طے کرے جس کے لیے بابا فرید نے کہا تھا کہ
،،کملی کر کے چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تاں رولاں!،،
کس نے اس مسافت کو دیکھا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے اور اپنے شوہر ناظم جوکھیو کی یاد میں ان گلیوں سے کھکوں کو اکھٹا کیا؟کون ہے جو ان آنسوؤں کو گن سکے کہ آج تک کتنے بہے؟کون ہے جو ان قدموں کے چلنے اور رکنے ،رکنے اور چلنے کو گن سکے؟!!!
حسن درس نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ
،،نہ ہی درزی ملا
اور نہ ہی من کا ناپ ہو سکا!،،
تو کون ہے جو شرین اور بوڑھی ماں کے من کا نام لے ۔دل کا ناپ لے۔آنسوؤں کو تولے اور اس انتظار کو بھی چکاسے جس انتظار نے ان کی آنکھوں سے دید ہی چھین لی ہے۔
ان کے چلنے،رونے ،ماتم کرنے،رونے۔پھر ماتم کرنے کو تو دیکھے۔پر کوئی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کھلے آسمان تلے کیوں بیٹھی ہیں؟
اس سے کوئی راہ چلتے پوچھتا بھی نہیں کہ بی بی کیا بات ہے؟
اور وہ اپنی سی کوشش کرتی ہیں کبھی اپنے ہاتھوں میں ہینڈ بل لیے ،کبھی کوئی پمفلیٹ لیے اور کبھی کوئی طویل پر خاموش دھرنا۔ایسا ہی ایک دھرنا وہ اس وقت اس روڈ پر دیے بیٹھی ہیں جسے نیشنل ہائے وے کہتے ہیں
میں یہاں دل کے دھرنے کی بات نہیں کر رہا
یخ دھرتی ہے۔یخ آسمان ہے۔اور یخ لوگ!
پر شرین اور بوڑھی ماں کے دل اور اشک یخ نہیں۔ ان کا انتظار بھی سرد نہیں ہوا اور ان کی امید بھی ٹھنڈی نہیں پڑی۔
میں ان لیڈروں سے نہیں کہتا۔وہ لیڈر تو فرزانہ مجید سے بھی بہت کچھ کہہ گئے تھے۔وہ قوم پرست نیلشسٹ ہو کر کراچی پریس کلب کے باہر ایسے ہی ننگی زمیں پر فرزانہ کے ساتھ بیٹھ گئے تھے اور جیسے کہہ رہے ہوں کہ
،،بی بی ہم کیا کر سکتے ہیں؟،،
اور انہوں نے کچھ کیا بھی نہیں اگر وہ کچھ کر سکتے تھے تو بس اتنا کہ وہ کراچی میں اردو کانفرس میں شریک ہوئے ادب پر دھونہ دار تقریر کی حبیب جالب کی بیٹی کو پانچ لاکھ کا چیک دیا جو لڑکی اب تک ٹیکسی چلا رہی ہے ٹیکسی سے اس کی اب تک جان کیوں نہیں چھوٹ پائی یہ الگ بحث کا موضوع ہے۔
باقی ڈاکٹر مالک کیا کرتا۔جو اسے کرنا تھا اس نے کیا!
پر وہ سندھ کی بیٹی اور ماں سردار اختر مینگل کی راہ تک رہی ہیں۔کہ ہ آئے انہیں اور کچھ نہیں دلاسہ ہی دے دے!
اختر مینگل صاحب کراچی کے پر تعش ہوٹلوں میں ہونے والے پروگرام چھوڑیں۔سب لوگ آپ کا غم جانتے ہیں۔جو آپ پر بیتی وہ سب جانتے ہیں۔یہاں پر وہ ادبی سیاسی تقریر چھوڑیں اور جائیں وہاں جہاں پر شرین جوکھیو اور ایک ماں آپ کی راہ تک رہی ہیں۔
آپ جائیں اور جا کہ ان کا غم سنیں۔مجھے معلوم ہے آپ ان کا غم دور نہیں کر پائیں گے۔پر اس سے یہ ہوگا کہ وہ غموں کی ماری یہ جان پائیں گی کہ کوئی تو ان کا پرسانِ حال ہے۔
ان کی غم کی شامیں اور غم کی صبحیں بہت طویل ہیں۔
ان کی غم کی راتیں تو جیسے ٹھر سی گئی ہیں!
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب سحر نہیں ہوگی!
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں سے اشک نہیں رکیں گے
ان کی غم کی شامیں اور غم کی صبحیں بہت طویل ہیں!
پر ان کی دید کسی ایسے دیداور کو تلاشتی ہیں جو ان کے پاس جائے ان کے پاس رکے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہے
،،انصاف ہوگا میری بچیوں دیددوں سے اشکوں کو روکو!،،
تو جائیں اختر مینگل صاحب!ان بیٹوں کے پاس جو سردی میں اداس کیمپ میں آپ کی منتظر ہیں
اس کراچی کے پر تعش ہوٹل کو چھوڑیں۔چھوڑیں ان لوگوں کو جو آپ کو گھیرے ہوئیں ہیں۔چھوڑیں ان باتوں کو جن میں کچھ نہیں رکھا ہوا۔چھوڑیں ان فقروں کو جو ادبی تو ہو سکتے ہیں۔پر کسی کے آنسو نہیں روک سکتے۔چھوڑیں اس بات کو کہ وہ کس کی ووٹر ہیں۔آپ یہ دیکھیں کہ
وہ اکیلی ہیں۔
وہ اداس ہیں۔
ان کے نین اشک بار ہیں!
وہ اپنا پیغام ہواؤں کو دے رہی ہیں۔
سردار اختر مینگل صاحب جائیں ان کے پاس
اس سے پہلے کے شور تھم جائے
اس سے پہلے کہ شور بھڑ جائے
اس سے پہلے کہ سب صبح رات میں ڈھل جائیں
اس سے پہلے کہ راتیں ماتم کناں ہوجائیں
میں جانتا ہوں الفاظ سے کچھ نہیں ہوگا۔میں جانتا ہوں کہ میں کتا ہوں اور بھوکتا ہوں۔پر میں ایک ناکام ہی صحیح پر کوشش تو کر رہا ہوں کہ کاش ان کی زندگی میں صبح ہو جائے۔
اختر مینگل صاحب جائیں ان کے پاس جن کی زندگی میں کوئی صبح نہیں
سندھ کی شرین اور دردوں ماری ماں دکھوں سے بھری بیھٹی ہیں اور اہلیانِ بلوچستان کو خبر ہی نہیں
دنیا کو دکھوں سے نہیں بھرو! دانیال طریر کو بلاؤ اس دنیا کو الفاظوں سے بھرنا ہے
بے قعت الفاظ!خالی خالی الفاظ!مایوسی سے بھرے الفاظ
سردار مینگل صاحب آپ بھی تو کراچی کے پرتعش ہوٹلوں کے پروگرام میں بس الفاظوں سے کھیلتے ہیں
ان بچیوں کو الفاظ عطا کر دو جاؤں ان کے پاس جو بہت اکیلی ہیں
اداس شاموں کی طرحِ ،بے چین راتوں کی ماند
،،لیکن جینا آسان نہیں
وہ لفظوں سے دنیا کو بھرنے
کی آرزو کے ساتھ
دنیا وہ زخم ہے جسے کسی ایک
شاعر کے لفظ نہیں بھر سکتے
میں جانتا ہوں
ایک روز موسم گدلا جائیں گے
چہرے ساکت ہو جائیں گے
شور تھم جائے گا
سارے دن
میرے اندر۔۔۔ غروب ہوجائیں گے
میں مر جاؤں گا
اور دنیا کو لفظوں سے نہیں بھرا سکوں گا!،،
سردار اختر جان مینگل سندھ کی بیٹیوں کے آنسوؤں کی خبر لو
وہ آنسو جن آنسوؤں کے لیے داغستان کے رسول حمزہ توف نے لکھا تھا کہ
’’دو آنکھوں سے
آنسو کے دو قطرے
بیٹیوں کے اداس رخساروں پر ڈھلکے
اک قطرے میں غصے کی بوُ
اک قطرے میں ماتم کی پکار
اک قطرہ غم کی مظہر
اک میں نوحہ کی باتیں
آنسو کے دو قطرے
جیسے دو بلور کے منکے
دو قطرے معمولی قطرے
تنہا تنہا بہتے جائیں
بے کس،بے بس قطرے کہلائیں
لیکن جب یہ مل جائیں
چمکیں جیسے بجلی چمکے
برسیں جیسے پانی برسے!‘‘
ہوا کے دوش پہ پیغام آیا ہے کہ
،،اختر مینگل سے کہنا سندھ کی بیٹی تمہیں یاد کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں