آرمینیا کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق آذربائیجان کی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں اس کے پندرہ فوجی مارے گئے ہیں جبکہ آذربائیجان نے کئی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
آرمینیا نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے کم از کم بارہ فوجیوں کو بھی پکڑ لیا گیا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے مابین ابھی ایک سال پہلے ہی نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقے میں چھ ہفتوں تک جنگی جاری رہی تھی اور اس دوران کم از کم چھ ہزار پانچ سو جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ تب روس کی ثالثی میں ایک امن معاہدہ طے پایا تھا اور یہ جنگ آرمینیا کی شکست تصور کی گئی تھی۔
آرمینیائی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”آذربائیجانی افواج کے حملے کے بعد شروع ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں آرمینیائی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔‘‘ اس بیان کے مطابق آذربائیجان نے دو فوجی چوکیوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اس سے قبل منگل کو دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر اپنی مشترکہ سرحد پر لڑائی شروع کرنے کا الزام لگایا تھا۔
دوسری جانب آذری وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ سرحد پر صورتحال کشیدہ ہے اور ”بڑے پیمانے پر اشتعال انگیزی‘‘ کو پسپا کرنے کے لیے فوجی کارروائی کی جا رہی ہے۔ بیان کے مطابق آرمینیائی فورسز توپ خانے اور مارٹر گولوں کے ساتھ آذری فوج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور اس کے جواب میں کچھ آرمینیائی فوجی ہارڈویئر کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
روس کی تاس نیوز ایجنسی کے مطابق آرمینیا نے اپنے سرحدی علاقوں کا دفاع کرنے کے لیے ماسکو حکومت سے مدد طلب کر لی ہے۔ روس کا ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ دریں اثناء یورپی یونین نے فریقین سے فوری طور پر ”مکمل فائر بندی‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
مسلم اکثریتی آذربائیجان اور آرتھوڈکس مسیحی اکثریتی آرمینیا کے مابین کشیدگی کا باعث نگورنو کاراباخ کا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن سابقہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سن 1991ء میں یہاں کے نسلی علیحدگی پسندوں نے اس پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ اس تنازعے میں اب تک تقریباﹰ تیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس ہونے والی جنگ میں نگورنو کاراباخ کے زیادہ تر علاقوں پر آذربائیجان نے دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔
جس علاقے میں گزشتہ برس جھڑپیں ہوئی تھیں، وہاں روسی امن فوجی تعینات ہیں۔ روس کی آرمینیا میں ایک فوجی بیس بھی موجود ہے جبکہ اس تنازعے میں آذربائیجان کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔