رامز بُلیدہ کو لوٹ رہا ہے
تحریر:محمدخان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
اچھا ہی ہے کہ چاند سے بیٹوں کو مائیں کاندھا نہیں دیتیں
اچھا ہی ہے کہ اداس لاشوں کے ساتھ مائیں سفر نہیں کرتیں
اچھا ہی ہے کہ سوکھتی لاشوں کے ساتھ غور تک مائیں نہیں جا تیں
اچھا ہی ہے کہ مائیں ماتم کر تی گھروں میں رہ جا تی ہیں
اچھا ہی ہے کہ اداس لاشوں کے ساتھ مائیں مقام(آخری آرام گاہ) تک نہیں جا تیں
اچھا ہی ہے کہ ماؤں کا ماتم گھروں کے دروں سے آگے نہیں جاتا
اچھا ہی ہے کہ مائیں سوز میں رہ کر گھروں کے صحنوں میں سینہ کوبی کرتی ہیں
اچھا ہی ہے کہ مائیں چھوٹے بچوں کے بھا ری جنازے مائیں نہیں اُٹھا تیں
مائیں بہت درد سہتی ہیں پر معصوم یسوع کے جنازے اُٹھانے کی ذہمت سے بچ جا تی ہیں
اچھا ہی ہے کہ محبوب بھائیوں کی سرد لاشوں کے ساتھ بہنیں نہیں چلتیں۔
یہ سب کچھ ہوگا وہاں جہاں ایسے دردیلے جنازے سفر نہیں کرتے، جہاں مائیں سرد لاشوں کے ساتھ سفر نہیں کرتیں،جہاں لاشوں کو ٹھنڈی سِلوں کے سرمیان نہیں رکھا جاتا،جہاں معصوم جسم گھائل نہیں ہو تے،جہاں آدھی رات کے گیدڑ رات کے آخری پہروں میں کچے مکانوں کا محاصرہ نہیں کرتے،جہاں کچے گھروں کے کچے صحنوں میں آگ نہیں لگائی جا تی۔جہاں ماؤں بہنوں کوبندوق کے زور پر حراساں نہیں کیا جاتا،کہاں مائیں بندوقیں دیکھ کر سہم نہیں جا تیں،جہاں بندوقیں بھونکتی نہیں اور گھروں میں سوئے رامز جیسے معصوم بچے گولیوں کا نشانہ نہین بنتے،جہاں رامز کے بھائی گھائل نہیں ہو تے،جہاں شہید ہوکر رامز جیسے معصوم یسوع پہلے تربت کی گلیوں میں پھر شال کے میدانوں میں انصاف کے منتظر نہیں ہو تے،جہاں چاند ماتم نہیں کرتا،جہاں آکاش ویران ویران سا نظر نہیں آتا۔جہاں سورج پہلے غصے میں گرم اور پھر آنسوؤں جیسا سرد نہیں ہوتا،جہاں مائیں بس رو تی ہیں پر ماتم نہیں کرتیں،جہاں پیچھے گھروں میں رہ جا نے والی ماتم کرتی بہنیں ماؤں سے فون پہ بات کرتے یہ نہیں کہتی
”اب اور اذیت میں نہیں سہہ سکتی
یا تو رامز کو دفن کرو
یا تو مجھے بھی مار دو!“
جہاں پر آنکھیں منتظر نہیں ہو تیں
جہاں پر آنکھوں سے آنسو بھی مختصر مختصر نکلتے ہیں
جہاں پر رویا کم اور دلاسے زیا دہ دیے جا تے ہیں
جہاں پر موت ایک منظر نہیں
پر پسِ منظر ہوتا ہے
جہاں پر موت میں بھی ایک خوشی ہو تی ہے
یہ سب وہاں پر ہوتا ہے،وہاں پر مائیں معصوم بچوں کے جنازوں میں جانے سے بچ جا تی ہیں
جہاں پر مائیں مریم کی طرح تماشے کو اپنی جاگتی آنکھوں سے نہیں دیکھتیں
جہاں پر مائیں آپ مصلوب نہیں ہو تی
جہاں پر ماؤں کے کاندھوں پر صلیب نہیں ہو تی
جہاں پر مائیں یسوع کے ساتھ ساتھ درد بھرا سفر نہیں کرتیں
جہاں پر مائیں یہ بھی نہیں دیکھتیں کہ یسوع مصلوب کیسے ہوا اور اس کے کس ہاتھ میں پہلے پہلے کیل ٹھوکا گیا
جہاں پر مریم یسوع کے پیچھے چلتے چلتے دکھے نہیں کھا تی
گرتی نہیں
اور چیخ کر میسح یہ نہیں کہتا کہ
”مجھے آہستہ آہستہ گھسیٹو
پیچھے ماں چل رہی ہے
جو نہیں چل سکتی!!“
یہ سب وہاں ہو سکتا ہے جہاں موت تو آئے جنازے تو اُٹھیں پر وہ موت سب کو مار نہ دے کسی ماں کو مسافر نہ بنائے۔کسی بہن کو درد نہ دے،کسی کے گھر کے آنگن کو نہ جلائے۔ماؤں کو حراساں نہ کرے،بندوقیں نہ بھونکیں،اور اگر بھونکیں تو کسی کو گھائل نہ کرے،جہاں چاند ماتم نہ کرے،اور سورج!
روئے نہ!!!
جہاں پہلے معصوم بچے نہ مریں اور اگر مریں تو ان کے اداس لاشے سرد سفر نہ کریں!
پر جہاں پر رامز جیسے معصوم بچوں کو نیند میں گولی گھائل کر جائے اور یہ تک نہ بتایا جائے کہ اس کا قصور کیا تھا؟تو ایسے میں مائیں لاشوں کے ساتھ سفر نہ کریں تو کیا کریں۔ان لاشوں کی صلیب کو اپنے کاندھوں پر نہ اُٹھائیں تو کیا کریں،ان لاشوں کے ساتھ غور تک نہ جائیں تو کیا کریں،اپنے ہاتھوں کے ساتھ ان بند آنکھوں پر مٹی نہ ڈالیں تو کیا کریں،ان لاشوں پرآنسوؤں کا بوسہ نہ دیں تو کیا کریں؟
اور پھر اس بند آنکھوں والی تصویر کو اپنی آنکھوں میں نہ سمائیں تو کیا کریں؟!!
رامز کی ماں بہت کچھ پیچھے چھوڑ آئی ہے
اور بہت کچھ دفن کر رہی ہے
وہ بہت کچھ پیچھے کی طرف جائے
یا جو بہت کچھ دفن ہو رہا ہے اس کے ساتھ سفر کرے؟
یہ دردوں کا سفر ہے!یہ دکھوں کا سفر ہے
یہ ایک مریم کا یسوع کے ساتھ آخری سفر ہے
تو وہ بہت کچھ پیچھے جو ہے اسے چھوڑ کر مسیح کے ساتھ ہے
جب تک ہجوم یسوع کو مصلوب نہیں کرتا یہ ماں یسوع کے ساتھ رہے گی
اور بلکتی رہے گی!!
کاش! بلوچ مائیں بیٹوں کے ماتھوں پر سہرہ باندھے۔ان کی دلہنیں تلاشیں،ان کے ہاتھوں پہ مہندی لگائیں پر ان کے لاشوں کے ساتھ سفر نہ کریں
کاش!بلوچ مائیں معصوم بچوں کے ناز اُٹھائیں ان کے گال چومیں ان کے اداس لاشوں کے ساتھ ویرانوں میں نہ بیٹھیں!
کاش!بلوچ مائیں اپنا جیون جئیں،خوب جئیں وہ اپنی آنکھوں سے آنسو نہ روئیں
رامز تو کل بُلیدہ میں سو جائے گا اس کی مختصر قبر بن جائے گی جو پھولوں سے ڈھک جائے گی
اور اس قبر پر مٹنے کے لیے ایک کتبہ بھی لگ جائے گا
آگے کیا ہوگا؟
بلوچ دھرتی بھی باقی ہے
مائیں بھی
اور ان کے بچے بھی؟
”کہوں کیا،دل کی کیا حالت ہے ہجرِ یار میں غالب!
کہ بے تابی سے ہر یک تار ِ بستر،خارِ بستر ہے“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں