حملوں کے بعد سی پیک مین پورٹ گوادر سے کراچی منتقل کرنے کا انکشاف

1893

چاپان سے ہفتہ وار شائع ہونے والا دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی اخبار “نکی ایشیاء“ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں چائینہ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے تحت تعمیر ہونے والے چائینہ پاکستان کوریڈور بلوچستان میں جاری شورش کے باعث کراچی کے ساحل پر منتقل کیا جارہا ہے۔

اخبار کے مطابق ایک غیر متوقع فیصلے میں پاکستان اور چین نے جنوبی ساحلی علاقے بلوچستان میں جاری مسائل کے بعد ممکنہ طور پر گوادر سے پاکستان میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مرکزی مرحلے کے طور پر کراچی ساحل کو ترقی دینے پر اتفاق کیا ہے۔

نکی ایشیاء رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ تقریباً دو سال کے وقفے کے بعد چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کی حال ہی میں منعقدہ 10 ویں مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا کراچی کوسٹل کمپرینسی ڈویلپمنٹ زون منصوبے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے شائع کردہ تفصیلات کی مطابق چین کراچی بندر گاہ پر 3.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس کی تصدیق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی کی ہے اس نئے سرمایہ کاری میں کراچی بندرگاہ میں مختلف نئی تعمیرات سمیت ماہی گیری بندرگاہ اور مغربی بیک واٹر پر 640 ایکٹر تجارتی زون شامل کرنا شامل ہے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اس منصوبے میں بندرگاہ کو قریبی منوڑہ جزیروں سے ملانے والا ایک بندرگاہ پل بنانے کا بھی منصوبہ شامل ہے۔

جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سی پیک میں کراچی جامع ساحلی ترقیاتی زون کو شامل کرنے کو ’گیم چینجر‘ قرار دیا۔

اخبار نے دعویٰ کیا ہے کے پاک چائینہ کوریڈور میں اس ڈرامائی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ بلوچستان میں جاری علیحدگی کی تحریک ہے اخبار کے مطابق گوادر چائینہ پروجیکٹ کے لئے ایک مشکل علاقہ ثابت ہوا ہے اس علاقے میں جاری علحیدگی پسندوں نے اگست میں چائنیز انجینئرز پر ایک خودکش حملہ کیا تھا –

اخبار کے مطابق گوادر میں چائنیز شہریوں پر حملہ اس وقت ہوا جب پاکستان کے وزیر اعظم نے گوادر میں سی پیک کے بحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ علحیدگی پسندوں سے مذاکرات کی بات کی تھی تاہم اس سے قبل جون میں سعودی عرب بھی ممکنہ حملوں کے پیش نظر اپنے دس بلین کے تیل پرروجیکٹ کو گوادر سے کراچی بندر گاہ منتقل کردیا تھا۔

اخبار کے مطابق اس فیصلے کے بعد گوادر غیر ملکی سرمایہ کاری سے محروم ہوجائے گا سی پیک کا گوادر سے اچانک کراچی منتقلی نے اس امر کو حقیقت میں کو بدل دیا ہے کہ پاکستان چائینہ کوریڈور کو کسی بھی وقت کمزور کرکے اسے بند کیا جا سکتا ہے۔

خیال رہے رواں سال اگست کے مہینے میں چائنیز انجنیئرز اور ورکروں کے گاڑیوں کو قافلے کو ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جن کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مجید بریگیڈ کی اندرونی کہانی – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنے سمیت بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر سال 2018 سے خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

سال 2018 کے اگست کو بلوچستان کے ضلع دالبندین میں چائنیز انجینئروں کے بس کو، اُسی سال 23 نومبر کو کراچی میں چائنیز قونصلیٹ کو اور 2019 کے 11 مئی کو گوادر میں پانچ ستارہ ہوٹل کو بلوچ خودکش حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جبکہ گذشتہ سال پاکستان اسٹاک ایسکچینج کو کراچی میں خود کش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا تھا۔

مذکورہ تمام حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیانات میں واضح کیا کہ مذکورہ حملے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے کی۔ علاوہ ازیں بی ایل اے سمیت بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح آزادی پسندوں کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاروں کو مختلف اوقات میں بلوچستان میں حملوں کا نشانہ بنانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔