بلیدہ میں پاکستانی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مرکزی ترجمان بی این ایم

249

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلیدہ میں پاکستانی فورسز کی ایک گھر پر دھاوا، فائرنگ اور دس سالہ بچے کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دس سالہ رمیز کا قتل اور سات سالہ رایان کے زخمی ہونے کا واقعہ بلوچستان میں جاری بربریت کا حصہ ہے۔ یہ برمش واقعہ اور دس سالہ چاکر کی شہادت کے واقعے کا تسلسل ہے۔ اس درندگی کا شکار دس سالہ رمیز کی شہادت کی شکل میں ہو یا تیرہ سالہ امیر مراد کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ، پاکستان کی اس پالیسی کا حصہ ہیں جو بلوچستان کو ایک کالونی بنانے کے بعد اپنائی گئی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ یہ ایک انتہائی قابل مذمت عمل اور قابل نفرت فعل ہے۔ یہ انہی واقعات کا تسلسل ہے جو بلوچستان کے طول و عرض میں روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ غلامی کی نمایاں علامات ہیں۔ غلام قوموں کے ساتھ یہ رویے تاریخ میں ہمیں ضرور ملتے ہیں مگر اکیسویں صدی میں کسی ملک کو کالونی بناکر غلامانہ سلوک روا رکھنا انسانیت اور انسانی اقدار کے منافی ہیں۔ پاکستان اس جدید دور میں بھی بلوچستان کو قابض اور کالونی رکھ کر جو مظالم ڈھا رہی ہے، اس کی مثال آج کی دنیا میں شاید ہی ملے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں کئی تنظیمیں انسانی زندگی کو ایک اہم مقام دلانے میں کوشاں ہیں۔ لیکن پاکستان عالمی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر نہ صرف کالونیلزم کو برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ ظلم اور تشدد میں چھوٹے بچوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ رویہ زرخرید غلاموں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ آج عالمی ترقی کے بعد دنیا میں ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر آ چکے ہیں مگر پاکستان آج بھی بلوچستان میں قرون وسطیٰ میں غلاموں کے ساتھ ہونے والی برتاؤ کو اپنایا ہوا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلیدہ میں بی ایس او کے چئیرمین ظریف رند کے گھروں پر حملہ اور دس سالہ بچے کی شہادت پر تمام لوگوں کو اٹھ کر پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا چاہیئے۔ ظریف رندکے نظریات اور پاکستان کے فریم ورک میں سیاست سے واضح اختلاف کے باجود کسی کو گھر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ سے بچوں کو نشانہ بنانا قابل قبول نہیں۔ پاکستان کے اس رویہ سے ہماری اس موقف کو تقویت مل گئی ہے کہ اگر آپ ایک بلوچ ہیں تو آپ کو پاکستان سے آزادی ہی کا مطالبہ کرنا چاہیئے کیونکہ یہاں آپ کو پانی، بجلی، صحت سہولیات، غرض کسی بھی مطالبے پر گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے۔