بلوچ قوم تسلیم کر ہی لے کہ وہ ایک نوآبادی ہے ۔ منگلی بلوچ

332

بلوچ قوم تسلیم کر ہی لے کہ وہ ایک نوآبادی ہے

تحریر:منگلی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان اور بلوچستان کی جغرافیائی حقیقت کیا ہے سب جانتے ہیں۔آج کے پڑھے لکھوں کو چھوڑ دیں، ہمارے آباء و اجداد جن کی اکثریت ناخواندہ ہے ، وہ بھی پاکستان کے غلیظ قبضہ گیریت سے واقف ہیں ۔ ان کے پاس وہ تمام آگاہی ہے جو پاکستان کا بلوچستان کے اوپر قبضہ گیریت سے پیوست ہے۔ کئی بار وہ کہانی کے طور پر بچوں کو سنا رہے ہوتے ہیں، کئی گلوگار مرد و زن اپنے گانوں میں مکمل حادثے کی وضاحت کرررہے ہوتے ہیں۔ خان آف قلات، نوروز خان و اسکے ساتھیوں کے دلیری کے قصے سناتے ہیں۔ لیکن جو حقیقت وہ ازل سے جانتے ہیں ، آج کے خواندہ لوگ بھی اس سے محروم ہیں (یا شاید جانتے ہوئے بھی انجان رہنا چاہتے ہیں)۔

بلوچ قوم اِس حقیقت کو تسلیم کر لے کہ ہمارے اور پاکستان کے بیچ کا رشتہ صرف قبضہ گیریت کا ہے۔ پاکستان قابض حکومت ہے اور بلوچستان مقبوضہ خطہ ہے۔ جبکہ قابض اور محکوم کے بیچ کوئی سمجھوتہ بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا نہ کہ حالات کبھی کسی صورت خوشحالی کا رخ کرتے ہیں ۔

قبضہ گیر شروع سے لیکر آخر تک جو خواہش رکھتا ہے وہ محکوم کو دبائے رکھنا ہے، اُس کے سرزمین کے وسائل و زمینی زخائر کا استحصال کرنا ہے۔ اپنے زیردست قوم پر اپنی حکمرانی قائم رکھنے کی غرض سے وہ کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال میں لاتا ہے ۔ اس کی پہلی کوشش تو یہی رہتی ہے کہ مقبوضہ قوم کو بغیر کسی جنگ کے اس بات پر قائل کردے کہ قابض کے ساتھ الحاق کو مان لیاجائے ۔

لیکن ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مقبوضہ قوم میں سے کوئی ایک عدد شخص بھی بغاوت نہ کرے، وہ اپنے سرزمین کی ناحق قبضہ گیریت پر خاموش و ساکن رہے اور اپنے قوم کا استحصال ہوا دیکھتا رہے۔ایسے میں قابض اپنی پہلی کوشش میں شکست کا سامنا ہی کرتا ہے، چونکہ قوم کو حقیقت سے آشنا کرنے بغاوتی عناصر سرگرم ہوجاتے ہیں، اور قوم کو متحرک کرتے ہیں۔

نوآبادی کئی حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس میں پہلا حصہ ہمیشہ مزاحمتی عناصر کا ہوتا ہے جو کسی بھی صورت غیروں کی مسلط کردہ حکومت اور قبضہ کو نہیں مانتے۔ اول دن سے ہی بغاوت کا اعلان کردیتے ہیں۔ ایک حصہ قوم میں ان لوگوں کا ابھرتا ہے جو قابض قوم کے قبضہ گیریت کو مان جاتے ہیں(وہ لڑنے سے گریزاں ہوتے ہیں ، یقیناً وہ لالچ ، عیاشی ، سکون ، اقتدار، موت کے خوف ، قربانی کے سبب قابض کے ساتھ سمجھوتے پر توجہ دیتے ہیں)، یہ بھی دھیان میں رہے کہ قابض کے ساتھ معاہدوں کے تحت رہنے والے مزاحمتی عناصر کے لئے باعثِ خلل بن جاتے ہیں ، کیی بار انہیں قابض حکومت اپنے ہی قوم کے مزاحمتی عناصر کے خلاف بھرپور استعمال کرتا ہے۔ تاکہ انہیں ختم کرسکے، اس کے عوض وہ انہیں پیسے ، اقتدار یا سہولیات کی لالچ فراہم کرتا ہے۔اور انکی جان بخش دیتا ہے۔

آج بلوچ قوم کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ پاکستان نے جب بلوچستان کی سرزمیں پر قبضہ جمایا ، اسی وقت سے بلوچ نرمزاروں نے اس کے خلاف بغاوت کی اور پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس حقیقت کو ہرگز نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ بزور شمشیر بلوچستان کو under-control رکھا گیا ہے۔

دنیا کا دستور رہا ہے جبکہ سامراجی قوتوں کی باقی ماندہ کمزور اقوام کے ساتھ ہمیشہ سے غیرقانونی ، غیراصولی رویے رہے ہیں۔ اگر کوئی قوم محکوم بنا دیا گیا ہے تو اس نے ضرور بغاوت کا راستہ چننا ہے۔ اپنی مستقل جدوجہد سے اور غیرمعمولی قربانیاں دےکر بھی انہوں نے فتح حاصل کی ہے اور پھر آج وہ تمام ممالک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

بلوچ عوام کا اپنے مزاحمتکاروں کے ساتھ یکجہتی بہت ہی کمزور ہے۔ ماس پارٹیوں نے آدھے سے زیادہ قوم کو گمراہ کردیا ہے(گمراہ اس ضمن سے کہ ماس پارٹیوں کے رہنما بلوچستان کے آزادی کی بات نہیں کرتے، انکے مقاصد ہی کچھ اور ہیں۔ اپنی دانشوارانہ سیاست کے تحت انہوں نے بلوچ عوام کو بنیادی مسئلے سے دور کردیا ہے)، سرداران، میر و ٹکریوں نے آدھا قوم اپنے نام کردیا ہے جو واضح طور پر گمراہ ہی ہیں جبکہ ریاست بخوب انہیں استعمال کررہا ہے۔ اپنے ہی قوم کے بدترین قاتل ہیں۔ تھوڑے سے دام میں بک کر قیمتی جانوں کا سودا کرتے ہیں۔

بلوچ قوم کو ہرطرح کے خوف سے بالاتر ہوکر اس غلیظ ریاست کے خلاف متحد ہونا ہی انہیں ہمیشہ کے ظلم و ستم سے بچا سکتا ہے۔ بلوچ قوم کی خوشحالی کا خواب پاکستان کے ساتھ رہ کر ہرگز پورا نہیں ہوگا۔ پاکستان نے ہمیشہ بلوچ قوم کے ساتھ نوآبادکاری والا رویہ رواں رکھا ہے۔اس نے کبھی بھی بلوچ قوم کو اپنے ملک کا حصہ ہی نہیں جانا۔ اس نے ہمیں صدا نوآبادکار کے ہی نظروں سے دیکھا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اصلاح پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ معاہدوں کے تحت اس کے غیرفطری الحاق کو قبول کرنا چاہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں