ایچ آر سی پی نے ڈی سی کیچ کی معطلی اور ایف سی کو مکران سے نکالنے کا مطالبہ کردیا

682

ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران (بلوچستان) کی جانب سے ایک پریس ریلیز کے ذریعے 10 اکتوبر 2021 کو ہوشاب ضلع کیچ میں ایف سی کی طرف سے گولہ باری کر کے دو بچوں کو قتل کرنے اور ایک بچے کو زخمی کرنے کے عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے اور قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزائیں دینے کا پرزور مطالبہ کیا گیا ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ 10 اکتوبر 2021 کو ہوشاب کے علاقے “پرکوٹگ” میں ایف سی کی بلاوجہ اور بلاجواز گولہ باری کے نتیجے میں ملّی مسکان بنت واحد موقع پر ہی جانبحق ہو گئی تھی جبکہ الله بخش ولد واحد اور پھلین ولد وزیر زخمی ہوگئے تھے جنہیں علاج معالجے کے لیے ٹیچنگ ہسپتال تربت لے جایا گیا الله بخش ولد واحد شدید زخمی ہونے کی وجہ سے علاج معالجے کے دوران جانبحق ہوگئے۔

جانبحق ہونے والے دونوں بچے انتہائی کمسن تھے اور زخمی بچہ بھی انتہائی کمسن ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کمسن بچوں نے آخر کون سا جرم کیا تھا جس کی پاداش ميں ایف سی نے ان پر غیرقانونی گولہ باری کی اور ایف سی کو اس قسم کی گولہ باریوں کا اختیار کس نے دیا ہے۔

ستم بالا ستم یہ ہے کہ تینوں بچوں کے خاندانوں کی طرف سے ایف آئی آر کٹوانے کے لیے ڈی سی کیچ حسین جان سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے ایف آئی آر کٹوانے سے انکار کرتے ہوئے تحقیقات کے بغیر اپنی طرف سے یہ جواب دیا کہ یہ ایک ہینڈ گرینیڈ تھا جو پہلے سے وہاں پڑا ہوا تھا اور جب بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنا شروع کیا تو وہ پھٹ گیا جس سے انہیں نقصان پہنچا۔

اسی طرح جب بچوں کے خاندانوں کی طرف سے دونوں لاشوں کے ساتھ فدا شہید چوک تربت میں احتجاجی دھرنا دیا گیا جس کے دوران یکجہتی کے لیے لوگوں کا آنا جانا شروع ہوا اور اسی دوران 12 اکتوبر کی صبح جب ڈی سی حسین جان بھی دھرنے پر پہنچے تو انہوں نے وہاں پر بھی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے گفتگو کے دوران وہاں پر موجود ایک خاتون کی بلاوجہ اور بلاجواز بے عزتی کی جس سے لوگ انکے خلاف کافی مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ان کی معطلی اور تبادلے کے مطالبات بھی کئے۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ تربت سے حق رسی نہ ہونے کی وجہ سے 12 اکتوبر کی رات کو جب دونوں خاندانوں کی طرف سے دونوں لاشوں کو لیکر بہت سارے لوگ گاڑیوں پر حق رسی کی خاطر جب کوئٹہ جانے لگے توہوشاب میں ایف سی نے انہیں جانے سے روکا اور یہ کہ کر کئے گھنٹے روکے رکھا کہ کوئٹہ جانے کے بجائے لاشیں یہیں دفنا دیں مگر خاندان کے لوگوں نے اس ناجائز حکم کو ماننے کی بجائے کوئٹہ کا سفر جاری رکھا اور 13 اکتوبر کو کوئٹہ میں سیول سکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا سلسلہ پر شروع کیا اور دھرنے کے دوران حکام بالا سے مجرموں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے اور انکی گرفتاری اور سزاوں کی مطالبات کے ساتھ ساتھ ایف سی کو ضلع کیچ سمیت مکران ڈویژن سے نکالنے اور ڈی سی کیچ حسین جان کی معطلی اور ضلع کیچ سمیت مکران ڈویژن سے تبادلے کی پرزور مطالبات کئے گئے اور سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں بلوچوں اور دیگر انسان دوست لوگوں نے مظلوموں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ظالموں کے خلاف انکے جائز مطالبات کی حامی برلی۔

پریس ریلیز کے آخر میں زور دیکر کہا گیا ہے کہ ایف سی اور ڈی سی حسین جان مسلسل ملکی آئین اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اصل فرائض منصبی کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں اور غریب عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیا کرتے رہے ہیں جسکی بنا پر انہیں قطعی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مزید ضلع کیچ اور مکران ڈویژن میں رہ کر غریب عوام پر ظلم زیادتی کا ارطقا کرتے رہیں لہذا حکام بالا سے اپیل کی جاتی ہے کہ مظلوم خاندانوں کے جائز مطالبات کے عین مطابق ایف سی کو فوری طور پر ضلع کیچ اور مکران ڈویژن سے نکال دیا جائے اور ڈی سی کیچ حسین جان کو پہلے معطل کیا جائے اور معطلی کی مدت گزرنے کے بعد انکا تبادلہ ضلع کیچ اور مکران ڈویژن سے باہر کہیں اور کیا جائے تاکہ انصاف کے تکازے پورے ہو سکیں اور یہاں کے غریب عوام آنئدہ انکے مزید مظالم سے محفوظ رہ سکیں۔