بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پانی اور بجلی کے لیے طویل عرصے سے احتجاج کرنے والے شہری اب سیکورٹی کے نام پر چادر و چار دیواری کی تقدس کی پامالی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں –
رواں ہفتے ماہیگروں کی بڑی تعداد نے جی ٹی گیٹ کے سامنے دھرنا دیا، جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی ان کا کہنا تھا کہ سمندر کے کنارے پر کھڈے کھودے گئے اور انکے کشتیوں کو نقصان پہنچا گیا۔ وی یہ الزامات پاکستانی سیکورٹی فورسز پر عائد کررہے تھے-
ایک شہری نے دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو بتایا کہ ترقی کے شور میں ہمارے حصہ میں صرف یہی آیا ہے کہ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو –
بزرگ شہری نے بتایا گذشتہ روز میں اپنے پوتے کو بخار ہونے کی وجہ سے قریبی کلینک لے جارہا تھا اور اجلت میں اپنا شناختی کارڈ گھر بھول گیا جس کی وجہ سے مجھے آرمی کے چیک پوسٹ سے واپس گھر بھیجا گیا –
گوادر میں انتہائی سخت سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے شہریوں بالخصوص خواتین کو سخت پریشانی کا سامنا ہے، قدم قدم چیک پوسٹوں پر شناخت اور رواں مہینے مختلف گھروں میں چھاپہ مارنے کے بعد اب شہر میں ڈرون کیمروں کی باز گشت ہے –
گذشتہ روز بلوچستان کے صوبائی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں رات کے اوقات ڈرون کیمرے چلائے جانے سے چادر و چار دیواری کی تقدس پامال ہورہی ہے –
انہوں نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر نوٹس لینا کا مطالبہ کیا –
جبکہ گوادر سے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی حمل کلمتی نے کہا کہ گوادر میں چیک پوسٹوں پر ماہیگروں اور شہریوں کی تذلیل برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے گوادر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ساحل وہاں کے لوگوں کی ملکیت ہے کسی اور کی نہیں –
ایک مقامی ماہیگر نے دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو بتایا کہ اس وقت ضلع گوادر میں 12 ہزار سے زائد کشتیاں ہیں اور گوادر کے مقامی ماہیگروں کے تین ہزار سے زائد کشتیاں ہیں۔ ہر کشتی پر چار سے آٹھ لوگ روزگار کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں –
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے نام پر شکار کا ایک وقت مقرر کرنا دراصل ہمیں معاشی طور پر قتل کرنے کا ایک منصوبہ ہے –
وہ کہتے ہیں کہ شکار کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہے، انکے مطابق جب یہاں باہر کے لوگ اور اتنے فوجی نہیں تھے تو ہمارے لوگ زیادہ خوشحال تھے اب ہم دو وقت کے نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں –
گزشتہ روز سوشل میڈیا میں ایک وائرل ہونے والے وڈیو میں ایک مقامی بزرگ خاتون نے کہا کہ ہمارے سمندر میں اب ہمیں جانے نہیں دیا جاتا ہے، بندوق کندھوں میں اٹھائے یہ ہمیں کہتے ہیں یہاں سے جاؤ، نہ یہ بچوں کا لحاظ کرتے اور نہ خواتین کا –
دی بلوچستان پوسٹ نمائندے کے مطابق گوادر میں لوگوں کو پانی، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور پریشانی کے بعد اب اپنے بنیادی روزگار ماہیگری سے ہاتھ دھونے کی پریشانی لاحق ہے-
گذشتہ روز ایک عوامی جرگہ میں ماہیگروں نے سیکورٹی کے نام پر شکار پر پابندی اور فوج کی جانب سے وقت مقرر کرنے کو مسترد کردیا –
ماہیگروں کی ایک بڑی تعداد نے مذہبی جماعت کے رہنماء ہدایت الرحمان بلوچ کی سربراہی میں پاکستان آرمی کے ایک وفد سے ملاقات کرتے ہوئے شہریوں کو پیش آنے والے مشکلات پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی فوجی کو یہ حق نہیں دینگے کہ وہ کسی بلوچ کے گھر پر چڑھ کر چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرے –
پاکستان آرمی کے آفسر نے مقامی جرگہ سے کہا کہ چائنیز کی وجہ سے یہ ہوا ہے انہیں سیکورٹی فراہم کیا جارہا ہے، تاہم مقامی ماہیگروں نے کہا کہ چائنیز کے ٹائم ٹیبل کا ہم پابند نہیں بلکہ انہیں ہمارے وقت کا پابند بنایا جائے اور سمندر میں جانے اور شکار کے ہم کسی وقت کی پابند نہیں ہیں –
ٹی بی پی کے مطابق گذشتہ روز مقامی جرگہ کے بعد ماہیگروں میں ایک امید دیکھی جاسکتی ہے کہ انہیں شاید اب شکار پر جانے سے روکا نہیں جائے گا، تاہم لوگوں میں اب بھی مایوسی ہے اور عام لوگ گوادر میں سخت سیکورٹی اور قدم پر قدم اپنے تذلیل پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی سے مایوس ہیں –
ایک شہری نے بتایا کہ جس طرح ماہیگروں نے اس غیر قانونی عمل کے خلاف بھرپور جدوجہد شروع کیا ہے تو سیاسی جماعتوں کو مکمل انکا ساتھ دینا چاہیے تھا لیکن اس عمل میں عملی طور پر شریک نہیں تھے –
ایک شہری نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گوادر کی کل آبادی تقریباً 138438 افراد پر مشتمل ہے، فی مربع کلومیٹر 115 افراد بستے ہیں اور ہر کلومیٹر پر لاتعداد چیک پوسٹ کے باوجود اب وہ رات کے وقت ہر گھر پر خفیہ اور ڈرون کیمروں سے جاسوسی کرتے ہیں –
انہوں نے کہا کہ جب سے یہاں سی پیک کے نام پر ترقی اور چینی باشندوں کی آمد ہوئ ہے مقامی لوگوں کی زندگی مشکل ہوچکی ہے۔