وطن کی مٹی ۔بلوچ خان

438

وطن کی مٹی

تحریر:بلوچ خان

دی بلوچستان پوسٹ

جب میں اپنے سر زمین پر رہ رہا تھا، مجھے کھانے پینے کے سوا کسی اور چیز کی آرزو نہ تھی، پہننے کیلئے پھٹے ہوئےکپڑے اور کھانے کے لیئے خشک روٹی اور پینے کے لیئے صرف چائے پر دل خوش تھا اور مٹی کی خوشبو سےدل باغ باغ ہوتا تھا۔ روزانہ اپنے بھیڑ بکریوں کے پیچھے پہاڑوں کی چوٹیوں پر وطن کی ہواؤں سے کھیلتا اور شام کو واپس آکر اپنی ٹوٹی ہوئی جھونپڑی میں گہری نیند سوتا تھا۔ کوئی تھکن اور بھوک محسوس نہیں کرتا تھا۔ شاہین کی طرح پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنا گھونسلہ بناتا تھا۔ پورا دن اسی گھونسلے میں بیٹھ کر اپنی بکریوں کو دیکھتا۔ موسم کی ٹھنڈی ہوائیں اور پرندوں کی چہچہاہٹ سےدل بہت خوش تھا۔ یہ لمحے میرے لیے جنت سے کم نہیں تھے۔

یزید کے لشکر نے میرا وطن اجاڑ دیا اور میرے خواب کو، میرے مٹی کو مجھ سے چھین لیا گیا۔ مجھے زندہ لاش بنا کر میری مٹی کی خوشبو ,گہری نیند ,سوکھی روٹی, سلیمانی چائے, پہاڑ کی چوٹی, پرندوں کی چہچہاہٹ میری چھونپڑی سب مجھ سے چھین لیا گیا۔

اس وقت مجھے بہت دکھ ہوا، جب میں اپنی مٹی سے جدا ہو رہا تھااور ٹوٹے ہوئے جھونپٹری کو چھوڑ رہا تھا، میری آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے لیکن یزیدی لشکروں نےمجھے موڑ کر دیکھنے تک نہیں دیا، میں روتا ہوا چلا گیا مجھے میرے مٹی سے دور دیار غیر میں بسا دیا گیا، یہ لمحہ میرے لیے قیامت سے کم نہیں تھا۔

دیار غیر میں میرے پاس میرے مٹی اور وطن کی یادوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اگروطن کی ایک سوکھی روٹی میرے پاس ہوتی تو میں جب تک زندہ تھا اپنے پاس رکھ لیتا اس کو بوسہ دے کر اسے دل سے لگا لیتا اور تعویذ بنا کر گلے میں ڈالتا تاکہ میرے دل کو سکون مل سکتا۔

کیا کروں دن رات اپنے وطن کے خیالوں میں بے چین رہتا ہوں میرے وطن کا کیا حال ہوگا، وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں اپنے وطن میں بھوکا مرکر اپنی مٹی میں دفن ہوجاتے ہیں ، اپنے وطن اور مٹی میں رہ کر توپ اور گولہ بارود کے شعلوں میں اپنے مٹی کی پاسبان بن کر یزید کے لشکروں کے سامنےاپنی وطن کی مٹی کی خاطر شہید ہوتے ہیں۔ وطن کی مٹی مجھے معاف کرنا میں تمھارا دفاع نہ کر سکا اپنی جان بچا کر دیار غیر میں چلا گیا اور گواہ رہنا میں دیار غیر میں اپنا سب کچھ کھو چکاہوں، وطن کی مٹی مجھے تمہارے پہاڑوں کی چوٹی اور سوکھی روٹی مجھے بہت یاد آتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں