فتح کے بعد طالبان کی آزمائش – میتھیو ایکنز

228

فتح کے بعد طالبان کی آزمائش

تحریر: میتھیو ایکنز
پہلا حصہ

دی بلوچستان پوسٹ

سابق افغان حکومت کے انٹیلی جنس چیف کے گھر میں بیٹھے مولوی حبیب توکل‘ جن کی گود میں بریٹا سب مشین گن رکھی تھی‘ نے بتایا کہ وہ اور ان کے جنگجو ساتھی اس بات پر سخت حیران تھے کہ 15 اگست کو ہمیں کتنی جلد بازی میں کابل پہنچنے کا حکم دیا گیا جبکہ طالبان ابھی تیزی سے پورے افغانستان میں پیش قدمی کر رہے تھے۔ اسی صبح حبیب توکل کا طالبان یونٹ کابل کے نواح میں پہنچ چکا تھا، اسے شاید کئی ہفتے کے لئے وہیں کیمپ لگانا تھا جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ متوقع تھا مگر انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ حیران کن طور پر صدر اشرف غنی اور ان کے کئی قریبی رفقا ملک سے فرار ہو رہے تھے۔ اس نے بتایا ’’اسی سہ پہر ہماری قیادت نے لوٹ مار روکنے کیلئے ہمیں شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا‘‘۔ طالبان کے انٹیلی جنس چیف حاجی نجیب اللہ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے ہیڈ کوارٹر پہنچ کر تمام ریکارڈ اور آلات اپنے قبضے میں لے لیں۔ یہاں حوالات، دفاتر، سکیورٹی پوسٹس‘ ہر شے خالی پڑی تھی۔ حبیب توکل نے بتایا ’’وہاں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے سوا کوئی نہیں تھا۔ وہ بھی صرف یہ عمارت ہمارے سپرد کرنے کے لیے بیٹھا تھا۔ تمام قیدی پہلے ہی وہاں سے فرار ہو چکے تھے‘‘۔

اب جبکہ دو ہفتے گزر چکے ہیں‘ طالبان اپنی نئی حکومت کا اعلان کرنے والے ہیں‘ جس میں افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ اخونزادہ افغانستان کے سپریم لیڈر ہوں گے۔ مولوی حبیب توکل اور دیگر طالبان کے خیال میں‘ حکومتی اراکین کے ناموں کے اعلان اور باقاعدہ حکومت سنبھالنے میں ابھی اہم خلا پایا جاتا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح‘ کابل میں بھی‘ حکومتی عملداری نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ چند سکیورٹی اہلکار سڑکوں پر ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ طالبان نے سرکاری اہلکاروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے سابقہ عہدوں پر فرائض انجام دیتے رہیں۔ کچھ افراد کام کر بھی رہے ہیں مگر آنے والے دنوں میں ایک سنگین مالی بحران پیش آنے والا ہے جس میں سب سے اہم مسئلہ نقد رقوم کی قلت ہے۔ نقد رقم کے بغیر تیل‘ خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور حصول ناممکن ہے۔ گزشتہ دو ہفتے تو طالبان کو عوامی سطح پر اور عملی طور پر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں ہی لگ گئے۔

چونکہ طالبان کے سابقہ دور کی سختیاں عوام کو یاد ہیں‘ اس لیے عوام کی اکثریت ابھی عدم اطمینان کا شکار نظر آتی ہے۔ اگرچہ طالبان بھی افغان حکومت کے اس قدر تیزی سے خاتمے پر حیران ہیں مگر وہ گزشتہ ایک عشرے سے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ایک شیڈو حکومت بھی قائم کر رکھی تھی۔ ایک سال سے انہوں نے صحتِ عامہ اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کے لیے قومی کمیشن قائم کر رکھے تھے اور ملک بھر میں ضلعی سطح پر انہوں نے اہم تقرریاں بھی کر رکھی تھیں۔ مولوی بختار شرافت‘ جو طالبان کی سابق حکومت میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں‘ تین سال قبل قائم ہونے والے پبلک ورکس کمیشن کے سربراہ ہیں۔ وہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور مرمت کے انچارج ہیں۔

سقوطِ کابل کے ایک دن بعد‘ 16 اگست کو بختار شرافت قندھار میں تھے اور وہ مغربی افغانستان میں تعمیر ہونے والے انفرا سٹرکچر کا معائنہ کرنے کے لیے جانے والے تھے مگر انہیں ایک سینئر طالبان لیڈر ‘مولوی محمد یعقوب‘ جو ملا محمد عمر کے بڑے بیٹے ہیں اور اس وقت ایگزیکٹو اتھارٹی کے طور پر کام کر رہے ہیں‘ کی طرف سے اہم پیغام موصول ہوا۔ مولوی بختار شرافت نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کو اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ مجھے حکم ملا ’’براہ کرم آپ کابل پہنچ کر اپنی وزارت کا چارج سنبھال لیں‘‘۔ ان کے ہمراہ سابق حکومت کے کچھ عہدیدار اور سٹاف ممبرز بھی تھے۔ مولوی بختار شرافت جب حکم کی تعمیل میں کابل پبلک ورکس آفس پہنچے تو اس کا سابق انچارج وزیر ملک سے فرار ہوچکا تھا۔ وہ پبلک ورکس وزارت کے باقی ماندہ سٹاف سے ملے اور تمام لوگوں کو طالبان کی طرف سے اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ سابق حکومت کے دور میں فرائض انجام دینے والے تمام سرکاری حکام کو عام معافی دے دی جائے گی۔ عام معافی کی اس یقین دہانی کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری ملازمین، سکیورٹی اہلکاروں اور عوام کی طرف سے طالبان حکومت کے لیے زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کیا جاسکے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ انہیں گھبرانے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم سب نے مل جل کر یہیں اپنے ملک میں ہی رہنا ہے۔

اگرچہ افغان طالبان کی آمد کا سن کر افغانستان کی اشرافیہ کی اکثریت ملک سے فرار ہوچکی ہے مگر بعض اہم سرکاری حکام نے یہیں اپنے ملک میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ افغانستان کے وزیر برائے صحت عامہ واحد مجروح نے بتایا کہ مجھے بھی صدر اشرف غنی کی طرف سے فرار کی پیشکش موصول ہوئی تھی مگر میں نے یہ آفر ٹھکرا دی تھی۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے بتایا ’’میں اپنے دفتر میں ہی مقیم رہا اور اس طرح اپنی زندگی کا ایک سنگین رسک لیا۔ اگر میں ملک چھوڑ کر بھاگ جاتا تو میرے ڈائریکٹرز اور دیگر مشیر بھی میری پیروی کرتے ہوئے فرار ہو جاتے‘‘۔

جس رات افغان طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے تھے تو وزیر برائے صحت عامہ واحد مجروح حسبِ سابق اپنے دفتر گئے‘ جہاں ان کی ہمسایے صوبے لوگر کے طالبان کے صوبائی کمشنر برائے صحت سے ملاقات ہوئی۔ واحد مجروح نے بتایا ’’صوبائی کمشنر مجھے وہاں دیکھ کر حیران ہوگیا۔ اس کا میرے ساتھ رویہ بہت احترام اور ادب کا تھا؛ تاہم اس نے مجھے کوئی واضح پیغام نہیں دیا‘‘۔ واحد مجروح کو تشدد یا ایسے حملوں کی توقع تھی جس میں بڑے پیمانے پر بے گناہ عوام کے قتل عام کا خدشہ لاحق تھا۔ ان کی پوری خواہش تھی کہ ان کی وزارت کے ماتحت کام کرنے والے تمام سرکاری ہسپتال دن رات کھلے رہیں۔انہوں نے یہ تجویز دی کہ میں اور طالبان حکام اکٹھے مغربی کابل میں ہزارہ علاقے میں واقع دو ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور وہاں کام کرنے والے سٹاف کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں کیونکہ یہاں کا ہسپتال عملہ طالبان کی آمد کا سن کر انتہائی خوفزدہ تھا۔ واحد مجروح کو یاد آیا کہ میں نے کہا ’’زبردست آئیڈیا ہے‘ چلو چلتے ہیں‘‘۔

سقوطِ کابل کے بعد‘ یعنی گزشتہ دو ہفتے سے واحد مجروح اور طالبان کے ہیلتھ کمیشن کے سربراہ مولوی یعقوب ایک ہی دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ مولوی یعقوب ان کے اس کردار کو بہت سراہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہسپتال کا سابق عملہ بدستور اپنے سرکای فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

(جاری)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں