بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر کے تحصیل جیونی کے گاؤں پانوان سے رواں سال کے 27 فروری میران ولد حمل بلوچ کو ایف سی اہلکاروں نے عمر نامی ایف سی کمانڈر اور جیونی پولیس تھانہ کے افسر رفیق کی سربراہی میں پولیس اہلکار اور ایف سی کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا –
خاندانی ذرائع کے مطابق گرفتاری کے وقت میران بلوچ کی عمر 18 سال سے کم تھی اس لیے انہیں قانونی طور پر نابالغ شمار کرکے ٹین ایج جیل میں منتقل کیا جائے-
مذکورہ تاریخ کو ان کے ساتھ دیگر بچوں کو بھی گاؤں کے دیگر گھروں سے حراست میں لیا گیا تھا جنہیں چند مہینوں جبری گمشدگی کے بعد رہا کیا گیا، لیکن میران تاحال سیکورٹی فورسز کے غیر قانونی تحویل میں ہے –
ان کے مطابق منت سماجت اور بااثر افراد سے سفارشیں کروانے کے باوجود تاحال میران بلوچ کی بازیابی عمل میں نہ آسکی، اس لیے 5 ستمبر کو میران کے والد ھمل بلوچ نے جیونی پولیس تھانہ میں اپنے بیٹے کی جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے درخواست جمع کی جس پر تھانہ ایس ایچ او واحد نے باضابطہ ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا۔
5 ستمبر کو ہی اس حوالے سے انہوں نے انسانی حقوق کے کارکنان بلوچ میڈیا اور ہماری تنظیم کے مقامی نمائندگان سے رابطہ کیا اور اس صورتحال کے بارے میں اطلاع دی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس خبر کی مقامی ویب سائٹ پر نشر ہونے کے ردعمل میں ایف سی کے علاقائی سہولت کاروں نے جن کے نام بھی ہمیں معلوم ہیں، متاثرہ خاندان پر دباؤ ڈالا اور ھمل کو ایف سی کے خلاف ایف آئی آر کی درخواست دینے پر برا بھلا کہا گیا –
انہوں نے کہا کہ ان ایف سی کے مقامی کارندوں نے نہ صرف اس خاندان کو ذہنی ٹارچر کیا ، انہیں اپنے حق سے دست بردار کرنے کے لیے معاشرتی دباؤ میں لانے کی کوشش کی بلکہ ان کے مدد کرنے والے سماجی کارکن زہیر نور ولد حاجی نور محمد کو گذشتہ روز 6 ستمبر کو ایف سی نے طلب کیا۔
علاقائی ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ انھیں ایف سی کے عمر نامی افسر نے طلب کیا تھا جس پر وہ اپنی وضاحت پیش کرنے گوادر گئے جہاں انھیں ایف سی نے ایک دن تک حبس بے جا میں رکھا اور دوسرے دن رہا کردیا گیا۔
مگر اس کا موبائل فون چھین لیا گیا جس سے اس کے رابطے منقطع ہیں۔
ہم بارہا اس پر بات کرچکے ہیں کہ بلوچستان میں 50 ہزار سے زائد جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں اور یہ ایک محتاط اندازہ ہے جبکہ اصل تعداد کئی زیادہ ہوسکتی ہے چونکہ متاثرہ خاندان کو ڈرایا جاتا ہے، بات کرنے سے روکا جاتا ہے اور ان کے مددگاروں کو زہیر نور کی طرح ذہنی اور جسمانی ٹارچر دے کرجبری گمشدگان کے لواحقین کی مدد کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ اس لیے لوگ اپنے جبری گمشدگان کی رپورٹ درج نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ زہیر نور کے علاقائی ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ ان کے گاؤں میں ایف سی کے مقامی ایجنٹوں نے خوف کا ماحول پیدا کر رکھا ہے اور یہی مقامی ایجنٹ براہ راست لوگوں کی گمشدگیوں میں ایف سی کی مدد کر رہے ہیں۔
زہیر کے گھر والوں کو اس حد تک خوفزدہ کیا گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں زہیر کی حمایت پر انہیں بھی سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے ، جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے اور یہ صاف نظر آرہا ہے کہ بلوچستان میں رہنے والے لوگ آزاد نہیں بلکہ بلوچستان کو ایک بڑے کنسنٹریشن کیمپ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ قدم قدم پر فوجی تعینات ہیں، گھر گھر میں ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے کرایے کے قاتل بٹھائے گئے ہیں، مفاداتی گروہوں کے ذریعے لوگوں کو دبایا جا رہا ہے۔بلوچستان میں رہنے والے جانتے ہیں کہ انھیں اس فضاء میں سانس لینے میں کتنی دشواری ہے۔ ہم با آواز بلند کہہ رہے ہیں کہ ہم سانس نہیں لے پا رہے لیکن دنیا کو شاید ہماری آواز سنائی نہیں دے رہی۔
انہوں نے کہا کہ پانوان گاؤں میں اس سے قبل بھی ایک انسانی حقوق کے کارکن کو کچھ گھنٹوں کے لیے گوادر سے کراچی جاتے وقت بس سے اتار کر جبری لاپتہ کیا گیا تھا ،جس نے کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کا دورہ کیا تھا اور یہ دوسرا واقعہ ہے کہ جس میں وی بی ایم پی کے کارکن کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
میں انسانی حقوق کے اداروں، عدلیہ اور حکام سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ زھیر نور کی فی الفور رہائی کو یقینی بنایا جائے اور اسے جبری گمشدگی سے تحفظ فراہم کیا جائے۔انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھوں نے جبری گمشدہ خاندان کی مدد کی تھی جو کہ ہر انسان کا فرض بنتا ہے۔اس کی بنیاد پر اسے ذہنی ٹارچر کرنا، اذیت پہنچانا اور اس کی آزادی سلب کرنا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس پر ہر ممکن سطح پر آواز اٹھائی جائے گی۔
میں پانوان گاؤں کے پیسے والوں سے جو سیاسی اور سماجی رہنمائی کے خلا کے اس دور میں علاقے کے سفید ریش اور معتبر کے درجے پر ہیں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ان بچوں کی زندگیوں سے کھیلنا بند کردیں۔میران اور زھیر بندوق بردار نہیں ، انھوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو خلاف قانون ہو لہذا ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی جبری گمشدگی پر بات کر یں اور جو خاندان اپنے گمشدگان کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے یہ ان کا حق ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی ہر ممکن مدد کریں۔لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پانوان کا سماج پیسے والوں کے زیر اثر اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے جو ان کے بچوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے پاس مصدقہ معلومات ہیں کہ ان میں سے ایک نامور آدمی ایک نوجوان کی جبری گمشدگی میں براہ راست ملوث ہے ، جسے مغربی سے بلوچستان اغواء کرکے جیونی میں پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں دیا گیا تھا ، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جہاں ہم ریاستی اداروں کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں تو ان کرداروں کو بھی نام لے کر بے نقاب کریں گے۔ عدالت میں ان کو لے جاکر کٹہرے میں کھڑا کریں گے، عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کو اس پر خط لکھ کر ان کی دیگر ممالک میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کریں گے کیونکہ یہ سب ہمارے لیے مزید قابل برداشت نہیں۔