گوادر حملہ – ذالفقار علی زلفی

748

گوادر حملہ

تحریر: ذالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ 

گوادر میں گزشتہ روز چینی اہلکاروں کے قافلے پر بم حملہ ہوا ، پاکستانی حکام کے مطابق حملے میں ایک چینی شہری زخمی اور تین مقامی بچے جاں بحق ہوئے ـ بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا جس کا ہدف چینی انجینئر تھے ـ بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کے مطابق حملے میں نو چینی انجینئرز ہلاک ہوئے اس کے ساتھ ساتھ جیئند بلوچ نے واضح کیا کہ بچے دھماکے سے نہیں بلکہ فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے ہیں ـ بعض مقامی افراد چھ چینی انجینئروں کی ہلاکت کا دعوی کر رہے ہیں۔ ـ

چینی انجینئرز/اہلکاروں کے ہلاکتوں کی تعداد سے قطعِ نظر موضوعِ بحث معصوم انسانی جانوں کا ضیاع ہے ـ کیا یہ معصوم بچے بم دھماکے کی زد میں آئے جس طرح پاکستانی حکام دعوی کر رہے ہیں یا فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے؟ ـ اس سوال کا قطعی جواب ہنوز غائب ہے۔ ـ

گوادر میں چینی اہلکاروں کی سیکیورٹی انتہائی سخت ہوتی ہے ـ کسی مقامی کا ان کے قریب جانا قریب قریب ناممکن ہے ـ اس تناظر میں بعض حلقے سوال اٹھا رہے ہیں بچے چینی گاڑیوں کے قریب کیسے پہنچے اور وہ وہاں کیا کر رہے تھے؟ ـ بعض مقامی افراد کے مطابق بچے مزکورہ سڑک کے برابر میں واقع گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے ایسا کیسے ممکن ہے جن پر براہِ راست حملہ ہوا وہ محفوظ رہے جبکہ دور کھیلتے بچے جاں بحق ہوگئے؟ ـ

حکام نے مقتول بچوں کا نہ پوسٹ مارٹم کروایا اور نہ ہی ان کی موت کے اسباب پر کوئی میڈیکل رپورٹ دی ـ بچوں کی میتوں کو جلدی جلدی لوٹانا شکوک و شبہات کو تقویت دے رہا ہے ـ گزشتہ سال تربت میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آچکا ہے جب فورسز نے بلوچ مسلح تنظیم کے بم حملے کے جواب میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کو قتل کردیا تھا۔

بلوچستان میں عرصہ دراز سے عوام شکایت کرتے آ رہے ہیں کہ فوجی اہلکار اپنے اوپر ہونے والے حملوں کے بعد اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں جس کا نشانہ بے گناہ افراد بنتے ہیں ـ گوادر کی سیاسی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ بچوں کے ہلاکتوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے رپورٹ کو عوامی سطح پر شائع کیا جائے۔ ـ



دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں