حسیبہ! مسکراؤ – محمد خان داؤد

184

حسیبہ! مسکراؤ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

حسیبہ!میری بچی،میری بیٹی،میری بہن تو جو ہنس رہی ہو مسکرا رہی ہو،پھولوں کی طرح کھل رہی ہو،تتلیوں کی طرح اُڑ رہی ہو،خوشبوؤں کی طرح فضا کو معطر کر رہی ہو،قو س قزاح کے رنگوں کی طرح ہر سو پھیل گئی ہو اب تمہا ری خوشبوؤں کا تتلیاں پتہ پو چھ رہی ہیں۔اب قوس و قزاح کے رنگ تمہیں حیرت سے تک رہے ہیں،اور ہنسی تمہارے لبوں کو چھو کر تمہا رے ہونٹوں کو مزید گلابی کر رہی ہے،
حسیبہ!پہلے تم نوحہ تھیں
اب تم ٹیگور کی دعا ہو
”اے مالک!مجھے ایسے بے فکر رکھ جیسے وہ دودھ پیتے بچے بے فکرے ہو تے ہیں
بس جھولوں میں رو تے ہیں
اور مائیں اُنھیں اُٹھا کر اپنی دودھ سے بھری چھاتیوں سے لگا دیتی ہیں!“
حسیبہ!پہلے تم مرثیہ تھیں!
اب تم ایاز کی دعا ہو
”اے مالک مجھے خوشبوؤں اور رنگوں سے بھر دے
میں نے تتلیوں کو خار ِ زار میں در بدر ہو تے دیکھا ہے!“
حسیبہ!تم پہلے سرا سر دکھ تھیں
اب تم ایاز کا گیت ہو
”وہ سورج ڈوبا پیالے میں
بھر دیا کس نے لال لہو
سب گھونٹ گھونٹ جو پیتے ہیں
اور جیتے ہیں
لو رات ہوئی،ہر تالوں میں
تارے تارے کا تیر چبھا
سب اپنی تڑپ چھپاتے ہیں
اور گاتے ہیں
تو نہیں ہے تو!میں نہیں ہوں میں!
ہم کیا ہیں!کیوں ہے؟کس سے کہیں؟“
حسیبہ!پہلے تم آنسو تھیں وہ بھی درد کے آنسو ایسے آنسو جو آنکھوں سے چھلکنے کو بے تاب ہوتے،بے قرار ہوتے بس آئیں کہ آئیں!برسیں کہ برسیں!
جن آنسوؤں کی بے قراری اور چھلکنے کی داد کو بلھے شاہ نے ایسے بیان کیا تھا کہ
”میں تو بس رونے کو بہانے تلاشتا ہوں میں ایسا ہوں جیسے وہ بارشوں میں بھیگا کوئی درخت بارشیں برستیں ہیں اور رک جا تی ہیں میں تو آنسوؤں سے بھرا رہتا ہوں کوئی پرند آکر مجھ بھیگے درخت پر بیٹھ جاتا ہے وہ جیسے ہی اُڑتا ہے میں بارشوں میں بھیگے درختوں کی طرح پھر سے برسنے لگتا ہوں!“
پر حسیبہ!اب تم دردیلے آنسو نہیں ہو
اب تو تم مینہ ہو محبت کی مینہ،دل کو پیار میں گیلا گیلا کر جانے والی مینہ
جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”آؤ بجلیوں،گھٹاؤ
اب نہ سہہ سکیں گے تاؤ
آؤ،آؤ،آؤ،آؤ
مینہ برس
مینہ برس
مینہ برس!“
حسیبہ!اب اپنی آنکھوں اور ان آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو اپنی آستین سے پونچھ لو
اور سنو کنفیوشس کا یہ قول جو بس تمہارے لیے ہے بس تمہا رے لیے
”فِکر کے بغیر علم،بیکار مشقت
علم کے بغیر فِکر دشتِ ویراں!“
حسیبہ!اب آگے بڑھو کتابوں۔مکتبوں اور علم کا دامن تھا لو
اب تم آنسو نہیں
پر کنفیوشس کی اُمید ہو،ایسی اُمید جس اُمید کو دیکھ کر وہ استادِ پیراں جی رہا ہے،ہنس رہا ہے اور اپنے شاگردوں کو آج بھی حکم دے رہا ہے کہ ”حسد میں جلو مت علم وہ عقل میں آگے بڑھو!“
حسیبہ کیا تم نے کنفیوشس کی یہ بات سنی ہے جو اس نے تمہارے لیے ہی کہی ہے کہ
”کسی ملک پہ ہزاروں سال حکومت کرنے سے بہتر ہے
دل پہ حکومت کی جائے
اور کوئی کتاب لکھی جائے
ہزاروں سالہ حکومتیں بھی ڈہہ جا تی ہیں
دل اور کتاب کسی سے نہیں بھولتا!“
حسیبہ!اب خوش رہو
کسی کی دل پہ حکومت کرو
اور کوئی کتاب لکھو
حسیبہ!کیا تم نے غالب کے شعر کا یہ مصرہ سنا ہے
”آتا ہے داغِ حسرت دل کا شمار یاد!“
بھلے لوگ بھول بیٹھیں ہوں،پر تم کیسی فراموش کر سکتی ہو
”داغَ دل
دل کا ملال!“
حسیبہ!اب آگے بڑھو اور خدا تم سے کوئی حساب نہین مانگ رہا میری بھادری بیٹی تم خدا سے حساب مانگ سکتی ہے جس خدا نے ان معصوم آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر دیا،دلایا اور مسافر بنایا
اب آگے بڑھو خدا کا کھاتا بند ہے اب تم اپنے ہاتھوں سے اپنا کھاتا لکھو
اور غالب کے اس شعر کو بلکل فراموش کردو کہ
”آتا ہے داغِ حسرت دل کا شمار یاد
مُجھ سے مرے گُنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ!“
حسیبہ!مسکراؤ کہ دل کی دھول دور ہو
حسیبہ!مسکراؤکہ پیروں کے درد دور ہوں
حسیبہ!مسکراؤ کہ ان بہنوں کے لیے جن کے سروں کے دوپٹے درد بھرے سفر میں پھٹے اور ان بہنوں سے ان دو پٹوں کو آزادی کا پرچم بنا دیا
حسیبہ!مسکراؤ آزادی کے پرچموں کے لیے
حسیبہ!مسکراؤں ان ماؤں کے لیے جن ماؤں نے گھروں میں نیند کم کیں اور راہ کے سفر زیا دہ
حسیبہ!مسکرا ؤ ان بیٹیوں کے لیے جن کے ہاتھوں میں اپنے باباؤں کی پرانی تصوریں ہیں
حسیبہ!مسکراؤ!ان بیٹیوں کے لیے جو سفر میں اپنے باباؤں کا پتا پوچھتی پھر رہی ہیں
حسیبہ!مسکراؤ فرزانہ کے لیے جس کے درد آکاش پر چمکتے تاروں سے بھی زیا دہ ہیں
حسیبہ!مسکراؤ ذاکر مجید کی بے بس ماں کے لیے جو ہر عید پر ذاکر جان کے کپڑے اور جو تے خرید کر انہیں آنسوؤں سے دھو تی ہے
حسیبہ!مسکراؤسمیل جان کے درد کو کم کرنے کے لیے
حسیبہ!میرے دیس کی ماؤں کے لیے مسکراؤ
حسیبہ!میرے دیس کی دردیلی بہنوں کے لیے مسکراؤ
حسیبہ!تم درد نہیں اب تو تم دعا ہو
اور اب ہاتھ بلند کرو ان ماؤں کے لیے جن ماؤں کی دعائیں تو کیا پر آہیں چیخیں،بھی خدا تک نہیں پہنچ پاتیں
حسیبہ!تم لطیف کا وہ سر ہو جو لطیف سے تخلیق ہونا رہ گیا ہے
حسیبہ!تم ایاز کی دعاؤں (شاعرہ کا سجدہ!)کی وہ دعا ہو جسے بس ایاز نے محسوس کیا پر نہ تو خدا سے مانگا اور نہ ہی کورے پنوں میں درج کیا
حسیبہ!تم لطیف کی یہ بات ہو کہ
”کڑو منجھ کڑے جئین لوہار لپیٹیو
ائین منھنجو من سپرین ء سوگھو کیو!!!“
حسیبہ!تم گردیو ٹیگور کی یہ انقلابی دعا ہو کہ
”جہاں ذہن خوف سے آزاد اور سر بلند ہیں
جہاں علم پہ پہرہ نہیں
جہاں دنیا کو تنگ اور مقامی دیواروں نے تکڑے تکڑے نہیں کیا
جہاں لفظ سچائی اور گھیرائی سے نکلتے ہیں
جہاں ان تھک جدو جہد اپنی بانہیں پھیلائی بُلا رہی ہے
جہاں پر عقل کا صاف شفاف بہاؤ اپنی بانہیں پھیلائے
ریگستان کی دھول میں گم نہیں ہوا
جہاں ذہن تمہا ری رہبری میں مسلسل پھیلتی سوچ اور عمل کی طرف
آگے بڑھ رہا ہے
ایسی آزادی کی جنت میں میری بیٹی
مسکراؤ
اور اپنے دیس کو جگاؤ“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں