بلوچ دوہری جبر کا شکار
تحریر:فضل یعقوب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں جہاں کہیں بھی مظلوم و محکوم اقوام عموماً خارجی جبر کا نشانے ہوتے ہیں. ان پر ایک بیرونی ظالم، جابر اور زور آور کی جانب سے تشدد ہوتی ہے لیکن بلوچ کی بدبختی کہیئے، لاشعوری یا اپنے آپ سے غفلت مگر بلوچ دوہری جبر کا شکار ہے.
ایک تو خارجی ظلم ہے جو غریب و دولت مند، بھوکے و امیر ،مزدور و سرمایہ دار، زمیندار و کسان، سردار و قبیلہ، مومن و لادین، عالم و ان پڑھ، مرد و زن اور بچے و بوڑھے سب پر مسلسل یکساں جاری ہے. دوسرا داخلی ظلم و ستم ہے جو بلوچ پر بلوچ کی جانب سے بیرونی سفاکیت کے ساتھ رواں دواں ہے.
وہ کبھی سردار، سرمایہ دار، جاگیردار، ڈیتھ اسکواڈ و دیگر ریاستی حمایت یافتہ غنڈوں کی شکل میں. جی ہاں، حیات بلوچ بیرونی جبر کا شکار ہوا تو ملک ناز اندرونی. اسی طرح قدیر خلیل خارجی ظلم کا تو محراب پندرانی داخلی ستم کا شکار ہوا. کیونکہ محراب پندرانی کا بے دردی سے قتل اور تشدد کسی اور نے نہیں بلکہ دولت اور جاگیر کی نشئے میں مست ایک بلوچ نے ہی کیا ہے.
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آج قومی فکر اور اپنی غلامی سے غافل بلوچ ہی استعمار کی گماشتہ بنے ہوئے ہیں. لہذا اس کشمکش میں باشعور، قوم پرست، انقلابی و نظریاتی ساتھیوں کو نہ صرف بلوچ الس کو قبضہ گیر کی بربریت سے آزادی دلانا ہے بلکہ ان بلوچ کمپراڈور اور گماشتوں کو بھی ظلم کے پہاڑ توڑنے سے بھی آجو کرنا ہے جو استعمار کی اشاروں پر اپنے ہی بھائیوں کا خون چوسنے اور بہانے سے کتراتے نہیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں