بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں کرونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا، ضلع میں عالمی وباء کے بھڑتے کیسز و عدم سہولیات کے باعث چوبیس گھنٹوں کے دوران 11 افراد کرونا سے زندگی کی جنگ لڑتے ہلاک ہوچکے ہیں –
کرونا سے ہلاک افراد میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کرونا کے شکار افراد تیز بخار میں مبتلا تھے جن میں زیادہ تر سرکاری ہسپتال میں بہتر علاج نہ ملنے کے باعث اپنے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
ضلع و گرد نواح میں عالمی وباء کے پیش نظر انتظامیہ کی جانب سے پہلے سے اسمارٹ لاک ڈاؤن لگا دی گئی تھی تاہم گوادر کے مختلف علاقوں سے مزید کروناء کیسز رپورٹ ہونے کی اطلاعات ہیں –
مقامی افراد عالمی وباء کی پھیلاو اور گوادر میں عدم سہولیات کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں اور دیگر شہروں میں لاک ڈاون کے سبب سفر کرنے سے قاصر ہیں –
مقامی رہائشیوں کے مطابق گوادر پورٹ اتھارٹی کے زیرنگرانی جی ڈی اے ہسپتال کے نام سے ایک بڑی ہسپتال بھی قائم ہے اور سول ہسپتال گوادر اس شہر کا قدیم ترین ہسپتال ہے جسکی ابھی ازسر نو تزئین و آرائش کی جارہی ہے لیکن صحت کی بہتر سہولیات ابھی بھی گوادر میں موجود نہیں ہے ۔
مقامی میڈیا کے ایک رپورٹ کے مطابق حکومت بلوچستان صحت کے شعبے میں ہر سال کروڑوں روپے کے فنڈز گوادر کے لئے مختص کرتی ہے جو باقاعدہ ریلیز بھی کردیے جاتے ہیں لیکن گوادر کے شہری صحت عامہ کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
گوادر سے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق گوادر کو پچھلے دس دنوں سے انتہائی مضرصحت پانی سپلائی کی گئی جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا میں بھی وائرل ہوچکی ہیں-
گوادر شہریوں کے مطابق تیز بخار اور کھانسی کی وجہ سے وہ پریشان ہیں سرکاری ہسپتال میں بہتر علاج دستیاب نہیں ہے ایمرجنسی میں جانے والے مریضوں کے لیے ویکسینیشن ضروری قرار دینا لوگوں کو ذہنی طور پر ہراساں کررہا ہے۔
محکمہ صحت بلوچستان کے حکام کرونا کے اس چوتھی لہر پر قابو پانے کے لیے ویکسینیشن کو ضروری قرار دے رہے ہیں جبکہ ایس او پیز پر بھی پابندی سے عمل درآمد کرانے کے لیے انتظامیہ سے اپیل کی جارہی ہے۔