عقوبت خانوں میں گذرے مہینے | قسط 2 – محسن رند

280

عقوبت خانوں میں گذرے مہینے

تحریر: محسن رند | قسط 2

دی بلوچستان پوسٹ

تب ہی سیل کا دروازہ کھلا تین لوگ اندر آئے دو بندے مجھے پیروں سے دبوچ کر گھسیٹنے لگے۔ میرا جسم پہلے سے ہی ٹارچر کی وجہ سے شدید درد کررہا تھا۔ گوکہ فرش سنگ مرمر کا بنا تھا لیکن گھسیٹنے کے وقت میرے جسم پر سوئیاں چبھنے لگے ۔

میرا کپکپاتا جسم نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا کہ مجھے ایک ٹیبل پر لٹایا گیا میری بنیان اتاری گئی اور پھر شلوار بھی اتار دی۔ ان میں سے ایک نے کہا پتا چلے گا کہ جو ملک لا اللہ الا اللہ کے نام پر بنا ہے تم لوگ اسے توڑنا چاہتے ہو اس کی سزا کیا ہے۔

ان میں سے ایک نے دوسرے سے سگریٹ مانگی اس نے جلا کر دی ۔ دو شخص جو ایک دوسرے کو اکبر اور احمد کے نام پکار رہے تھے میرے سرہانے پر کھڑے تھے اور تیسرا جو سگریٹ پی رہا تھا اس کو عبداللہ کے نام سے پکار رہے تھے۔ عبداللہ میرے رانوں کے پاس کھڑا سگریٹ کا آخری کش لگانے کے بعد سگریٹ میرے مقعد کے اندر ڈال کر بھجایا تب مجھے احساس ہوا کہ نیم بے ہوشی میں بھی آگ کی جلن کم نہیں ہوتی۔ لیکن پھر میں اس وقت اپنے نیم بے ہوشی کا شکر منا رہا تھا۔ وہ تینوں نکل گئے۔ میں جانے کتنی دیر تک اس ٹیبل پر پڑا رہا۔

جب مجھے اٹھایا گیا تو کمرے میں ساتھ آٹھ لوگ تھے مجھے ٹیبل سے اٹھا کر زمین پر دے مارا۔ میرے ہاتھ کی کوہنی اتنی زور سے لگی ہڈی ٹوٹنے کی آواز مجھے سنائی دی۔ میں اسی لمحے ہاتھ کو ہلانے کی کوشش کررہا تھا چیک کروں پکا ہاتھ کی ہڈی کوہنی سے ٹوٹ گئی ہے تبھی تین بندوں نے مجھے پکڑا اور ایک نے میرے اسی ہاتھ کو الٹا مروڑنے لگا وہ لوگ چاہ ہی رہے تھے کہ ہڈی توڑ دی جائے میں چیخ رہا تھا ان کو خدا کا واسطہ دے رہا تھا لیکن انہیں تب ہی چین آیا جب ان میں جو ایک شخص کرسی پر بیٹھا تھا جو ان کا باس نظر آرہا تھا اس نے چھوڑنے کو کہا۔

میں نے اس کی جانب دیکھا تو وہ مجھے کسی فرشتے کے روپ میں دکھائی دے رہا تھا اس نے ہاتھ سے اشارہ کرکے سب کو جانے کو کہا سب چلے گئے وہ کرسی میرے قریب لایا۔ میرے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا بیٹا تم شریف خاندان سے ہو تم اچھے زہین طالب علم ہو تم اپنے خواب پورے کرسکتے ہو کیوں خود کو ان مسئلوں میں الجھایا ہوا ہے۔ اگر تم انہیں بتا دو کہ تمارے ساتھی کون کون ہیں اور ان کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہے وہ کہاں پر رہ رہے ہیں ان کو کھانا شانا کون دیتا ہے تو آپ کو بحفاظت چھوڑ دیں گے۔ کیوں خود پر ظلم کررہے ہو اپنی حالت دیکھو زرا کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہو۔

میں نے کہا سر میں کسی بھی ایسے شخص کو نہیں جانتا نا ہی کبھی ان سے میرا واسط پڑا ہے ۔

اب اس کے لہجے میں سختی آنے لگی کہنے لگا تم لوگ کیوں سچ کو چھپا کر اپنی جان گنوا دیتے ہو۔ کیا تم نہیں چاہتے تم یہاں سے نکل کر اپنی ڈگری مکمل کرو ایک اچھا سا جاب لو اور خوشی خوشی زندگی بسر کرو۔

میں گوکہ آنسوؤں کو روک رہا تھا لیکن یہ کہتے ہوئے میں اللہ کی قسم کسی کو نہیں جانتا وہ لوگ کون ہیں کہاں سے آتے ہیں کیا کیا کرتے ہیں میرے آنسو تیزی سے نکل رہے تھے۔

اب اس کا لہجہ پہلے والے لوگوں کی طرح ہوگیا وہ مجھ پر برسنا شروع ہوگیا۔ بہن چود تم لوگوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے سب جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہتے تمارے موبائل سے سارا ڈیٹا نکال رہے ہیں اس سے ہمیں سب کچھ مل جائے گا لیکن اگر تم خود مان لو تو تمہارے لئے اچھا رہے گا نہیں تو آج رات تمہارا کیا حشر ہوگا وہ تم دیکھ ہی لوگے۔

میں نے پھر قسم کھاتے ہوئے کہا میں آج تک کسی ایسے شخص سے نہیں ملا ہوں مجھے ان کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں۔ میرے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کی ہتھیلی پر کرسی کا ایک پیر رکھ کر اس پر بیٹھ کر کہا تم سے سارے راز اگلوانا بھی جانتے ہیں۔ پھر وہ کرسی کو ہلارہا تھا تاکہ زیادہ زور پڑے اس وقت میرے پاس درد،بے بسی چیخ اور آنسوؤں کے علاؤہ کچھ نہیں تھا۔

اس نے آواز دے کر سب کو آنے کا کہا۔ وہ جیسے ہی اندر آگئے، اس نے ان سے کہا یہ مادر چود ایسے نہیں بتا رہا اسے آج رات کمرہ نمبر 13 میں لے جانا وہاں سب کچھ فٹا فٹ بتا دے گا۔

ان سے ایک نے کہا سر ابھی اسے کمرہ نمبر 12 میں لے جاتے ہیں رات کو 13 نمبر میں شفٹ کریں گے وہ جو ان کا ہیڈ لگ رہا تھا اس نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے۔

جب وہ مجھے گھسیٹ کر لے جارہے تھے مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ میں بالکل ننگا ہوں۔ وہاں فرش کی یہ خوبی تھی کہ بالکل صاف تھا اس لئے گھسیٹنے پر زیادہ درد نہیں ہوتا ہاں البتہ کمرے سے ہال اور ہال سے کمرہ میں لے جاتے وقت دہلیز پر لگے لوہے سر اور کمر کو بہت زور سے لگتے تھے۔

وہ مجھے کمرہ نمبر 12 میں لے جارہے تھے وہاں پہنچ کر کمرے کو دیکھتے ہی میری ہمت اور حوصلے پست ہونے لگے تھے۔ وہاں موت کے سارے سامان رکھے تھے ، اسی لئے یہاں لاتے وقت انہوں نے آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی ہوگی تاکہ کمرے کو دیکھ کر خوفزدہ ہوکر سارے ناکردہ جرائم کو بھی قبول کریں۔ میں نے کئی بار ایسے لوگوں کے تصویریں دیکھی ہیں جن کے سروں کو ڈرل کیا گیا۔

کمرے میں پڑے ایک ٹیبل کے پاس ڈرل مشین دیکھ کر میں نے روتے ہوئے اپنی ماں کو یاد کیا۔ اب میں چیخ چیخ کر رو رہا تھا قسمیں کھا رہا تھا کہ میں بندوق والوں میں سے کسی کو نہیں جانتا۔

ان میں سے ایک نے کہا ہم جانتے ہیں تم کسی کو نہیں جانتے لیکن تھوڑا صبر کرو کچھ لمحوں بعد تمہیں سب کچھ یاد آجائے گا۔

انہوں نے خون سے لت پت کپڑے کا ٹکڑا میرے منہ میں رکھا مجھے اسی ٹیبل پر اس زور سے باندھا گیا کہ میرے جسم کا ایک حصہ بھی ٹھیک سے ہل نہیں پارہا تھا۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں