عقوبت خانوں میں گذرے مہینے – قسط 1 | محسن رند

440

عقوبت خانوں میں گذرے مہینے

قسط 1

محسن رند

دی بلوچستان پوسٹ

تقریباً ہر بلوچ پاکستان کے زندان سے واقف ہے اور ان میں اکثریت نے وہاں کے تشدد سہے بھی ہوں گے۔ اور ہزاروں تشدد کی شدت سے شہید بھی ہوگئے ہیں۔ میں نے بھی 30 مہینے پاکستان کے ان جہنم خانوں میں گذارے ہیں۔

جیسا کہ ہم سنتے آئے ہیں کہ شداد نے اپنے لئے ایک جنت بنائی تھی۔ ایسے ہی پاکستان کے آرمی اور خفیہ اداروں نے ہم بلوچوں کے لئے جہنم بنائی ہے جس میں لے جانے کی شرط گناہ کرنا نہیں بلکہ بلوچ ہونا ہی کافی ہے۔بلوچ ہونا ہی تمام گناہوں کی پہلی نشانی ہے۔

سردیوں کی راتیں تھیں میں اپنے کمرے میں سورہا تھا۔ رات کے قریباً 1 بج رہے تھے میرا چھوٹا بھائی جو میرے ساتھ کمرے میں سورہا تھا۔ اس نے مجھے جگایا کہا دیوار پھلانگنے کی آوازیں آرہی ہیں ، دوسرے کمروں کے دروازے بھی زور سے کھولنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے بندوق بردار ایف سی والے اور کچھ سادہ لباس میں تھے۔ میرے نکلنے پر سب میری طرف لپکے مجھے لاتوں گھونسوں سے مارنے لگے تبھی ان میں ایک شخص نے براہوئی میں کہا محسن انا دے( محسن یہی ہے) پھر وہ مجھے گھسیٹ کر گیٹ کی طرف لے جارہے تھے۔

میرے گھر والے تب تک جاگ چکے تھے، میری ماں اور بہنیں مجھے چھڑوانے کے لئے انہیں منت سماجت کرنے لگے انہوں نے ایک نا سنی الٹا میری ماں کو سینے سے ایک ایف سی والےنے لات ماری تو دوسرے ایف سی والوں نے میری بہنوں اور بھائیوں کو بھی زدوکوب کیا۔

چونکہ میرے پیر کھلے تھے میں نے بھی ایک ایف سی والے کو لات مارا جس سے اس کا بندوق اس کے ہاتھ سے گر گیا پھر اس نے بندوق کے پشت سے میرے کمر پر مارنے لگا میری والدہ اور بہنیں چیخ کر رورہی تھیں۔ میں انہیں اس قدر اپنے لئے بے بس و لاچار دیکھ کر رونے لگا۔

مجھے گاڈی میں پھینک کر پھر مارنے لگے۔ گاڈی کے اندر میرے آنکھوں پر پٹی باندھنے کے ساتھ میرے ہاتھوں کو اتنی زور سے باندھا گیا ہاتھوں میں ایک جلن سی محسوس ہونے لگی ۔شاید رگوں میں خون کی گردش بہت ہی آہستہ ہوگئی تھی۔ گاڈی تو بہت ہی آرام دہ تھی لیکن وہ طوفان جو دل میں ابھر رہا تھا وہ زخم جن کی وجہ سے میں بیٹھ نا سکتا تھا یوں لگ رہا تھا کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ ان چیزوں نے احساس دلایا جیسے میں بڑا ہی گنہگار ہوں جس کی وجہ سے یہ دوزخ کے فرشتے مجھے دوزخ میں پھینک کر سزائیں دیں گے۔

سفر لمبا تھا کچھ گھنٹے لگے تھے کیونکہ جب مجھے گاڈی سے نکالا جانے لگا تو فجر کی آذانیں ہورہی تھیں۔ انہوں نے مجھے گاڈی سے اتار کر پھر لاتوں گھونسوں سے مارنے لگے تھے، مجھے مارتے ہوئے وہ ایک جگہ پھینک کر گئے میں ہاتھ پاؤں بندھنے کی وجہ سے ہل بھی نہ سکتا تھا۔

اب میں مکمل ان کے رحم کرم پر تھا۔ میں شاید پورا دن اور دوسری رات تک ادھر پڑا رہا۔ مجھے سخت حاجت تھی پیشاب کی، میں نے آوازیں دی کوئی نہیں آیا تب میرا پیشاب نکل گیا تھا ۔ پیشاب سے گیلا ہونے کی وجہ سے سردی کی شدت کا اندازہ ہوا۔ پھر میں کپکپانے لگا میں نے ہلنے کی کوشش کی تاکہ اپنا جگہ تبدیل کرسکوں کہ شاید وہ جگہ خشک ہونے کی وجہ سے اتنی سردی نا لگے۔ لیکن ہلنا میرے بس میں نہیں تھا۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں