بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4368 دن مکمل ہوگئے۔ مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکن عبدالستار بلوچ، زبیر بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بلوچستان میں بھی ظلم و جبر، تشدد لوٹ مار، بربیرت اور قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ قوم نے آواز اٹھائی اور پرامن جدوجہد کا آغاز کیا، لوگ شروع میں کم تعداد میں بلوچ شامل تھے، شروعات وی بی ایم پی نے کی جس نے موجودہ پرامن جدوجہد کی داغ بیل ڈال دی۔
انہوں نے کہا کہ قبضہ گیر اپنی تشدد، ظلم و جبر کے استعمال میں تیزی لے آئی اور ہزاروں بلوچوں کو شہید کیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ریاستی مظالم اور تشدد ٹارچر سیلون میں اذیت برداشت کررہے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں زیادتیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ حکمران جماعت کے کچھ ارکان بھی گمشدگیوں اور قتل عام میں ریاست کے ملوث ہونے کی مذمت کررہے ہیں۔ بلوچ عوام کو درپیش سب سے بڑا خطرہ سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے ان کی جبری گمشدگیاں، ٹارگٹ کلنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت وقت نے مشرف دور کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اگر طاقت سے عوام کی خواہشات کو دبایا جاسکتا ہے تو اس دنیا پر اس برادری کا راج ہوتا کہ جس نے سب سے پہلے خود کو ایک مسلح گروہ کے طور پر منظم کیا تھا۔