میرا خواب، میرا پرچم | قسط 1 – محسن رند

538

میرا خواب، میرا پرچم

قسط 1

تحریر: محسن رند

دی بلوچستان پوسٹ 

گہرے بادل کسی طوفانی بارش کا پیغام دے رہے تھے، ویسے تو ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی لیکن دور سے گرج کی آوازیں کچھ دیر بعد نزدیک ہوکر گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کے امکانات بڑھا رہے تھے۔ تب دشمن کے گھیرے میں پھنسے میں نے اپنے ساتھی سرمچار شیہک کو کہا میں ان سے نپٹ لوں گا تمہیں کسی بھی طریقے ان کے نرغے سے نکالنے کی کوشش کروں گا تاکہ تم یہاں سے بحفاظت نکل سکو۔ جبکہ شہک کہنے لگا اب محاصرے کو ختم کرنے سے زیادہ اس پر توجہ دیں کہ کونسا تیکنیک اپنا کر دشمنوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان دے سکیں۔ اسی اصول کو اپنا کر جنگ لڑیں گے۔

اس سے پہلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی بار گھیرے میں آچکا تھا لیکن ہربار دشمنوں کا گھیرا توڑ کر نکلنے میں کامیاب بھی ہوا تھا ایک طرح سے مجھے مہارت بھی حاصل ہوگئی تھی کہ بزدل دشمن کا گھیرا توڑنے کے لئے کیسی تکنیک اپنائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس بار ہم دونوں کا ایک ساتھ نکلنا ممکن نہ تھا کہ ہم دونوں بحفاظت نکل سکیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی کو کہا ہم دونوں کا ایک ساتھ نکلنا آسان نہیں، جب بھی موقع ملے تو تم نکل جانا۔ لیکن شیہک اس پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ وہ کہنے لگا دودا آج ساتھ مرنے کا دن ہے آج امر ہونے کا دن ہے۔ آج تاریخ رقم کرنے کا دن ہے۔ آج کی شام ہماری آخری شام ہے۔

میں نے بھی کہہ دیا تو آج ایسی جنگ لڑیں گے کہ جنگ کے خوف سے پتلونیں اتارنے والی فوج بھی جان لے بلوچستان کوئی پلیٹ میں رکھا نوالہ نہیں جسے جب چاہا منہ میں ٹھونس لیا۔

میں نے شیہک کو کہا 20 20 قدم کے فاصلے پر یہ چھ بندوقیں رکھتے ہیں کبھی بھاگ کر اس سے فائرنگ کریں گے تو کبھی دوسرے سے تین بندوق تم سنبھال لینا۔تین میں سنبھال لوں گا۔ تاکہ دشمن کو لگے یہ 6 بندے ہیں جن سے ان میں مزید خوف طاری ہوگا۔ ہم نے 20 قدموں کے فاصلے پر اپنے
4 گھنٹوں سے زیادہ دو بدو کی گھمسان لڑائی ہورہی تھی۔

اب ہیلی کاپٹرز کی آوازیں آنے لگیں تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا شیہک آج پکا آخری دن ہے۔ تبھی ایک گولی میرے دائیں بازو سے لگی جس سے میں گرگیا خون تیزی کے ساتھ بہنے لگا میں نے سر اٹھا کر شیہک کو دیکھا پھر ہنس کر کہنے لگا مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں اپنے مقصد شہادت کے اتنا قریب ہوں۔ شعور کی عمر سے ہی میرے دو خواب رہے ہیں ایک آج جو پورا ہورہا ہے دوسرا جو میرے بعد ضرور پورا ہوگا۔

اب ایک ہاتھ ضائع ہوگیا ہے تو دوسرے ہاتھ سے بندوق پکڑ کر دشمن پر اس طوفانی بارش کی طرح برسنا ہوگا۔ میں نے ایک ہاتھ سے بندوق بمشکل اٹھایا کیونکہ دوسرے ہاتھ پر زور بھی آرہا تھا جس کی وجہ سے تیر لگے بازوں کی ہڈیوں میں کرنٹ کی لہر دوڑنے لگی۔ تب ہی میں نے شیہک کو چیخ کر بلایا چونکہ وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر تھا تو بھی نہیں سن پارہا تھا پتھروں پر پڑتی بارش کی بوندیں تیز ہوا کے جھونکوں میں راکٹ اور تیروں کی آوازوں میں میری اواز گم ہوگئی تھی۔ میں دوڈ کر دوسرے اے کے 47 سے فائر کرنے جارہا تھا تو ایک گولی میرے ران پر لگی جس سے میں گرگیا۔ مجھے گرتے ہوئے دیکھ کر شیہک میری طرف دوڑنے لگا جیسے ہی میرے قریب پہنچا میں نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا اور ہنس کہنے لگا شیہک میرا خواب پورا ہورہا ہے وہ خواب جسے میں نے سوتی آنکھوں سے نہیں بلکہ شعور کی انکھوں سے دیکھا تھا اور یقین ہے کہ دوسرا خواب بھی پورا ہوگا۔

میرا پہلا خواب میرے دوسرے خواب کی کڑی ہے۔ یہ کہتے وقت ہیلی کاپٹر بندوق کے رینج تک آگیا تھا شیہک تیزی سے راکٹ لانچر کی طرف بڑھا ایک مارٹر گولہ فائر کیا جو سیدھا ہیلی کاپٹر کے اندر جا لگا جس سے مڑتا ہوا پہاڑ کی چوٹی سے لگ کر تباہ ہوا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں