پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور صوبائی صدر سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی نماز جنازہ اور تدفین بدھ کی شام ان کے آبائی علاقے مسلم باغ میں کر دی گئی۔
نماز جنازہ سے قبل تعزیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ کے قتل کے ثبوت موجود ہیں، وقت آنے پر پیش کرینگے۔ جو ہمیں انصاف فراہم کرے اس کے سامنے ثبوت رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ تین مہینے کے بعد بنوں میں پشتون قوم کا جرگہ بلائیں گے۔
بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ 17 جون کو کوئٹہ کے نجی ہسپتال لایا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا۔
حالت خراب ہونے پر انہیں 19 جون کو ایئر ایمبولنس کے ذریعے کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ پیر کو انتقال کر گئے۔
عثمان کاکڑ کے بیٹے کا کہنا کہ ’گھر کی بیٹھک کے جس حصے میں وہ گرے وہاں قالین موجود ہونے کی وجہ سے گرنے کی صورت میں اتنی شدید چوٹ لگنے کا احتمال موجود نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زبان بندی نہ کرنے پر والد اور باقی گھر والوں کو دھمکی آمیز پیغامات مل رہے تھے جس کا ذکر ان کے والد نے سینیٹ میں اپنی آخری تقریر میں بھی کیا۔‘
بیٹے اور دیگر رشتہ داروں کے بیانات کے بعد پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کئی سینیئر رہنماؤں اور سینیٹ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے بھی عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ’پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیئر رہنماء سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت طبعی ہے، ملک دشمن عناصر ان کی موت کو غلط رنگ دے رہے ہیں۔ خاندان نے تحقیقات کے لیے رابطہ کیا تو حکومت بھرپور تعاون کریں گے۔‘
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’ہسپتال نے اب تک عثمان کاکڑ کے موت کی وجہ کا تعین نہیں کیا۔ ان کی موت طبعی ہے یا غیر طبعی، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پیر کی شام عثمان کاکڑ کی لاش کا مکمل پوسٹ مارٹم کیا گیا، میڈیکل ٹیم نے نہ صرف خود تمام کیمیکل نمونے لے کر کراچی میں واقع متعلقہ حکومتی لیبارٹری کو ٹیسٹ کے لیے بجھوا دیے بلکہ خاندان کی درخواست پر انہیں بھی تین جار اور دو سرنجز پر مشتمل نمونوں کا سیٹ بناکر دیا ہے تاکہ وہ کسی بھی آزاد لیبارٹری سے ٹیسٹ کراسکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کہا جاتا ہے کہ عثمان کاکڑ سر پر چوٹ لگی تھی۔ ہمیں وہ جس حالت میں ملے ان کی سرجری ہوچکی تھی جس کی وجہ سے دکھائی دینے والے شواہد ختم ہوچکے تھے۔‘
’ہم نے کوئٹہ اور کراچی کے ہسپتالوں کا تمام ریکارڈ منگوالیا ہے اور پرانی سی ٹی سکین رپورٹس بھی حاصل کرلی ہیں۔ ہم نے خود بھی یہاں سی ٹی سکین کرایا ہے۔‘
سمعیہ سید کا کہنا تھا کہ ’لیبارٹری سے کیمیکل سیمپلز کی رپورٹ ایک ہفتے سے دس دن تک مل جائے گی جس کے بعد پوسٹ مارٹم کی تفصیلی رپورٹ جاری کی جائے گی۔‘