عاشقوں کے لیے ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے – محمد خان داؤد

118

عاشقوں کے لیے ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

پرندوں کو گولی لگتی ، وہ لہو لہان ہو تے تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے
کل اسے گولی لگی۔وہ لہو لہان ہوا اور چلمن کے آکاش پر اُڑتے پرندوں کی آنکھوں میں آنسو تھے
پرندے گولی کھا کر گرتے،پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑے پتھر ان کے خون سے سرخ ہو جا تے
کل اس نے اپنے نحیف ونازک جسم پر گولی کھائی،پہاڑ کے میدانوں میں پڑے پتھر اس کے خون سے سرخ ہو گئے
اُڑتے رنگوں والے پرندے جب مارے جاتے،وہ انہیں اُٹھاتا اور ان مردہ پنکھوں سے کہتا
”معاف کرنا!بارود اور گولی کی آنکھیں نہیں ہو تی وہ نہیں جانتی کہ اسے کون چلا رہا ہے،اسے کون بڑھکا رہا ہے اور وہ کسے گھائل کر رہے ہیں!“
کل اسے گولی نے گھائل کیا،وہ گرا اور دوبارہ نہ اُٹھ پایاپر اسے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ
”معاف کرنا!بارود اور گولی کی آنکھیں نہیں ہو تی وہ نہیں جانتی کہ اسے کون چلا رہا ہے،اسے کون بڑھکا رہا ہے اور وہ کسے گھائل کر رہے ہیں“
جب خوبصورت پرندے،خوبصورت پہاڑوں کے،خوبصورت آکاش پر گھائل ہوکر گرتے
تو وہ رونے لگتا اور کہتا،،معاف کرنا!بارود اور گولی کی آنکھیں نہیں ہو تی وہ نہیں جانتی کہ اسے کون بڑھکا رہا ہے اور وہ کسے گھائل کر رہے ہیں
جب وہ کل گھائل ہوکر گرا تو اسے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ
”معاف کرنا!بارود اور گولی کی آنکھیں نہیں ہو تی وہ نہیں جانتی کہ اسے کون چلا رہا ہے،اسے کون بڑھکا
رہا ہے اور وہ کسے گھائل کر رہے ہیں!“
جب کوئی بہت سے رنگوں والا پنکھ خون میں لت پت ہوکر گرتا،وہ دوڑتا،بھاگتا اور اسے اپنے ہاتھوں میں لیے اپنی قمیض کا دامن تار تار کر کے اس کے لیے کفن بناتا اور پہاڑوں کی چوٹیوں میں اس دفن کر کے اس پر چھوٹے سے پتھر کی سلِ رکھ دیتا اور رات میں نکلے آکاش سے کہتا
”اب یہ تیرے حوالے“

وہ بھی بہت سے رنگوں والا پنکھ تھا،بولی کا رنگ،دھرتی کا رنگ،ماں کا رنگ،دیس کی یادوں کا رنگ،دیس کی گلیوں کا رنگ،یاروں کا رنگ،ان یاروں میں حالِ یار کا رنگ،محبوبہ کا رنگ،محبوبہ کے گالوں کو چومنے کا رنگ،محبوبہ کے پستانوں سے بہتے پسینے کا رنگ،پسینے کے ذائقے کا رنگ،سیاہ بالوں کا رنگ،گلابی گالوں کا رنگ،دیس اور ماں کی محبت کا رنگ وہ بھی بہت سے رنگوں والا دیس کا عجب پنکھ تھا،کل گھائل ہوا،اس کے ساتھی دوڑے،کچھ نہ اپنے دامن تار تار کیے کسی نے دیس کے آزاد پرچم کا کونہ کاٹا اسے کفن دیا اور پہاڑوں کے دامنوں میں دفن کر کے اس پر بھا ری پتھروں کی سلِ رکھ دی اور رات میں نکلے چاند سے کہا
”اب یہ تیرے حوالے“

وہ زندہ تھا۔دیس کے ہوائیں اس کے حوالے تھیں اب وہ نہیں تھا دیس بھی چاند کے حوالے اور وہ بھی چاند کے حوالے!
ایسے عاشق دیس دروہی نہیں ہو تے،ایسے عاشق تو دیس بھگت ہو تے ہیں
جن کے مارے جانے پر ہوائیں ماتمی لباس پہنتی ہیں
چاند اداس رہتا ہے
رات جلد چھا جا تی ہے
اورسورج اپنے مقررہ ٹائم پر طلوع نہیں ہوتا
جب دور بہت دور کوئی سرمچار سمجھ جاتا ہے کہ
”پھر کوئی گھائل ہوا ہے
پھر کسی کا دامن تار تار ہوا ہے
پھر دیس کے آزادی کے پرچم کا کونہ کاٹا گیا ہے
اور پھر کسی کو پہاڑوں کے دامنوں میں دفن کیا گیا ہے
پھر کسی کی نئی قبر پر بھا ری پتھروں کی سلِ رکھ دی گئی ہے
اور ایسے سر فروشوں کے لیے
ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے!“
اس وقت جو بلوچستان کے آکاش پرچاند طلوع ہو رہا ہے
وہ ماتم میں ہے
وہ اداس ہے
وہ پھیکا ہے
وہ بے رنگ ہے
وہ بے نور ہے
عاشقوں،جوانوں کی موت کا نوحہ کیا ہوتا ہے؟
یا تو کوئی چاند سے پوچھے
یا کوئی ماں سے پوچھے
یا کوئی محبوبہ سے پوچھے
جس کے گال کو ایک بار عاشق چوم گیا
وہ گال ہمیشہ شاداب رہا
جس کے پستانوں کو عاشق ایک بار چھو گیا
وہ ہمیشہ دودھ سے بھرے رہے
جن عاشقوں کی چُمی سے محبوبائیں حاملہ ہو جائیں
جن عاشقوں کی شہا دت کو مائیں صبر سے سہہ جائیں
جن عاشقوں کے قدموں کو دھرتی آگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں پر نہیں پر اپنی آنکھوں پر لے
اور جب ایسے عاشق گولی کھا کر گھائل ہوں اور دھرتی کے سینے میں کسی غم ناک آنسو ؤں کی طرح پیوست ہو جائیں دھرتی انہیں تلاشتی رہے اور جب وہ نہ ملیں تو دھرتی دیوانی ہو جائے اور کہہ اُٹھے کہ
”انکھیوں پیر کرے،پرین ء ڈے ویجے!“
”آنکھوں کو پیر بنا لو اور محبوب کے پاس جاؤں!“
جب ایسے عاشق قبر بن جائیں،اور ان قبروں پر بھا ری پتھروں کی سلِ رکھ دی جائے
تو محبوبہ اور مائیں ہی نہیں پر دھرتی بھی اپنا توازن کھونے لگتی ہے
کل سے دھرتی ء بلوچستان اپنا توازن کھو رہی ہے!
دھرتی اپنا توازن کیوں کر نہ کھوئے،جب ایسے محبوب دلربا ء انسانوں پر موت مسلط کی جائے اور دھرتی لہو سے بھر جائے۔پر دھرتی ایسے چراغوں کو بھجنے نہیں دیتی،وہ اس سرخ لہوسے ان عاشقوں کے لیے نیا سویرہ کرتی ہے نیا اُجالا کرتی ہے اور اس اُجالے میں وہ شبہیں ہمیشہ روشن رہ جا تی ہیں
جو مقدس دھرتی کا مان رکھتی ہیں
اور اپنا لہو دھرتی کی نظر کر جا تی ہیں
کل میں بے خبر رہا
تم بے خبر رہے
پر بلوچستان کے آکاش پر اُڑتے پنکھ بے خبر نہ تھے
وہ روئے بھی
اور انہوں نے ماتم بھی کیا
کیوں کہ
ان عاشقوں کے لیے ہر موسم کا چاند ماتم کرتا ہے
جن کے لیے باغِ گلِ سرخ ہوتا ہے
جن کی موت پر چاند پھیکا اور اداس ہوتا ہے
جن کے لیے ہوائیں ماتمی لباس پہنتی ہیں
جن کے بعد بارشیں نہیں برستیں
جن کے بعد شبنمیں اداسی کے آنسو ہو تے ہیں
یہ عاشق اپنی موت سے پہلے پتھروں کی سلوں پر ایسے جملے لکھ جا تے ہیں کہ
”میں نے اس وقت اپنے فرائض انجام دیے جب
دوسرے اس راہ میں قدم اُٹھانے کی جرائت نہیں رکھتے تھے
اور اس وقت سر اُٹھا کر سامنے آیا جب دسرے
گوشوں میں چھپے ہوئے تھے۔اس وقت زباں کھولی جب
دوسرے گنگ نظر آئے،گو میری آواز سب سے دھیمی تھی
لیکن سبقت و پیش قدمی میں سب سے آگے“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں