سرخ رنگ کے شہید
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
سرخ رنگ،شوخ رنگ،زندگی کا رنگ،جدو جہد کا رنگ
سرخ رنگ!
خوشی،اور بغاوت اورزندگی اور آزادی کا رنگ
یہ رنگ کہاں سے آتا ہے،نہیں معلوم پر یہ رنگ کہاں سما جاتا ہے یہ معلوم ہے سرخ رنگ آنکھوں سے ہوتا دل میں ٹہر جاتا ہے،پر اس انسان کا پورا چین چھین لیتا ہے جس انسان کی آنکھوں سے ہوتا یہ سرخ رنگ اس کے دل میں سماجاتا ہے،پھر وہ انسان وہ انسان نہیں رہتا،پر وہ انسان و ہ انسان بن جاتا ہے جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”ھی ڈوھ نہ آھی مانھون جو
مون مٹی بھیر گوئی آ“
”یہ انسان کا قصور نہیں
میں نے ہی مٹی پھر سے گوندی ہے!“
پھر وہ نیا انسان بن جاتا ہے،وہ جو دھرتی سے محبت کے گیت لکھے،جو مظلوم انسانوں کی داد رسی کرے،جو مٹی رنگ کو بھائے جو مٹی پہ بیٹھے اور مٹی لگے انسانوں کی بات کرے،جس کی نیند میں دیس کے سپنے آئیں جو مسافر کونجوں کو دعا دے کہ پھر میرے دیس لوٹ آنا اب کے بار بندوق نہیں پر پھولوں سے تمہارا سواگت ہوگا۔جو مٹی کی خوشبو میں مہو ہو جائے،جسے مہندی رنگ بہا جائے،جو بارش کے قطروں سے محبت کرے،جو برستی بارش کے بعد دیس کی مٹی کی خوشبو کا دیوانہ ہو جائے،جو میلے بچوں سے محبت کرے جو دیس کے میلے انسانوں کو پیار کی جھپی پائے۔جسے دیس کے پہاڑوں سے ویسی ہی محبت ہو جیسی محبت اسے محبوبہ کے پسینے سے شرابور پستانوں سے ہو۔وہ پہاڑوں کے دامنوں میں کھو جائے،وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر وہ کھلے سرخ پھول دیکھے جو کسی دیس بھگت کے خون سے کھلے ہوں۔وہ ان پھولوں کو پیار سے دیکھے اور ان کی خوشبو میں مست ہو جائے،جو رات کو تاروں کو اس چاہ سے دیکھے کہ یہ تارے جیسے محبوبہ کے آنگن میں چمک رہے ہیں ویسے ہی یہ تارے ان قبروں پر بھی چمک رہے ہوں جو قبریں دیس کے سرخ شہیدوں کی ہیں۔
وہ سرخ شہید جنہیں ماؤں نے جنا اور انہوں نے خود اپنی منزل طے کی
دیس سے محبت کی منزل
دیس کی راہوں میں مر مٹنے کی منزل.
دیس کی راہوں میں پھولوں کی پتیوں کی طرح بکھر جانے کی محبت
تاروں سے چاہ کی محبت
چاند سے یاری کی محبت
اور چاند کے ساتھ دیس کی ندیوں میں ڈوب جانے کی محبت!
ان دیس کے سرخ شہیدوں کے پیارے چہروں کو چمکتا چاند اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے ان کے خون آلود چہروں کا بوسہ لیتا ہے اور ان پر واری جاتا ہے،دیس کے سرخ شہیدوں پر آکاش کے تارے نچھاور ہوتے ہیں،یہ تارے سرخ شہیدوں کی مانگوں میں سجے رہتے ہیں جس سے خون آلود مانگیں چمکتی رہتی ہیں،پر ہمیں نہ تو سرخ شہید نظر آتے ہیں،نہ ان کے حسین چہرے اور نہ ہی ان کی تاروں سے سجی مانگیں!
کیوں کہ ہماری آنکھوں پر مفادات کی پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ہم نہ تو دیس کو جانتے ہیں اور نہ دیس کی محبت کو ہم کیا جانے کی ماں،محبوبہ کی بولی کا لمس کیا ہے؟ہم کیا جانے کہ جب ماں اپنی شہد جیسی بولی میں ہمیں پکارتی ہے تو کتنے پھول رسوں سے بھر جا تے ہیں۔ہمیں کیا معلوم کہ جب کوئی محبوبہ بہت سے آہستگی سی اپنے محبوب کو پکارتی ہے بھلے زیرِ لب ہی تو کتنی کنواریوں کے پستان دودھ سے بھر جا تے ہیں
اور ان کے گھاگھرے چھاتیوں کی طرف سے گیلے ہو جا تے ہیں اور وہ ان چھاتیوں کو دیکھتی ہیں تو انہیں اپنی ہی چھاتیوں پر پیار آنے لگتا ہے!
ہم دیس،ماں اور محبوبہ کی بولی سے واقف نہیں
ہم تو مفادوں کی دینا میں رہتے ہیں جہاں پانچ دیتے ہیں اور دس لیتے ہیں!
پر جن شہیدوں نے دیس کی محبت میں گولی اور بندوق کا سامنا کیا ہے،وہ اس لیے نہیں کیا کہ انہیں جائدادیں دی جائیں،انہیں جانوروں کے ریوڑ دے جائیں،انہیں دنیا کی حسین لڑکی دے جائے،انہیں کسی علائقے کا ملک،سردار بنا دیا جائے نہیں
انہوں نے اپنے سینے اور اپنے خوبصورت چہرے پر گولی صرف اس لیے کھائی ہے کہ انہیں اپنی مٹی سے محبت ہے۔انہیں اپنے دیس سے پیار ہے،انہیں اپنی ماں،محبوبہ اور بولی سے محبت ہے
پھر دیس سوکھی مٹی ہی صحیح،پھر ماں ان پڑھ ہی صحیح پھر محبوبہ گنوار ہی صحیح!
وہ دیش دروہی نہیں،وہ دیش بھگت ہیں
جب انہیں مٹی سی محبت رہی ہے اور وہ مٹی ر وارے گئے ہیں
تو مٹی بھی انہیں فراموش نہیں کر رہی
مٹی ان کے گیت گا رہی ہے
مٹی ان پر نچھاور ہو رہی ہے
مٹی ان کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دے رہی
مٹی ان کے خون سے سرخ پھول اُگا رہی ہے
مٹی انہیں ماں کی آغوش دے رہی ہے
مٹی انہیں اپنے اندر جذب کر رہی ہے
مٹی انہیں اپنی ممتا دے رہی ہے
مٹی ان کا لہو لہو چہرہ چوم رہی ہے
مٹی انہیں امر کر رہی ہے
مٹی انہیں کبھی نہیں بھلائے گی
مٹی ان کی قبروں پر چاند کو لا رہی ہے
مٹی ان کی لہو لہو مانگ میں تارے سجا رہی ہے
مٹی نے انہیں پیغام دیا
انہوں نے مٹی کا پیغام سنا
اور وہ بول اُٹھے
”اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد!“
کون آیا،کون گیا،کس نے حکمرانی کی،کون فتوح رہا،کون فاتح رہا
سب بھلا دیے جائیں گے
سب مایا ہو جائیں گے
اور سب مایا ہے
پر مٹی ان کو کبھی فراموش نہیں کریگی
جو مٹی کا مان اونچا کر گئے
جو اپنے لہو سے مٹی کے گیت لکھ گئے
جو اپنے لہو سے مٹی کے گیت گا گئے
سب بھلا دیے جائیں گے
مشرق کے ہیرو بھی
مغرب کے ہیرو بھی
داستان کو ان کا نام تک نہ لیں گے
پھر دھرتی خود کہے گی
”میرے شہیدوں کے گیت گاؤ
وہ شہید جو مٹی کے شہید ہیں
وہ شہید جو بھا ری پتھروں کی سلوں کے نیچے امانتاً دفن ہیں
لال شہید
لہو رنگ شہید
ہلوان شہید
گلاب رنگ شہید
سرخ رنگ شہید!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں