سخن آتے ہیں اس کے یاد بہت – ایم آر شیہک

299

سخن آتے ہیں اس کے یاد بہت

تحریر: ایم آر شیہک

دی بلوچستان پوسٹ

ادھر اپنی ذات کی گہرے اندھیرے اور یاسیت کے بھوت تھے کہ ایک پل کو کسی دلفریب منظر کو سراہنے کی ہمت نا اکھٹی ہونے پاتی تھی۔فلسفہ و مذہب، خیر و شر ، عقل و جذبات،امید و یاس جیسے کئی مترادفات کی بیک وقت لپیٹ میں زندگی اجیرن تھی کہ خبر آئی کہ وہ خوب رو شدت احساس میں قوم کی خاطر دنیا کی عیش و عشرت چھوڑ کر، ہر جوان کو ابتدا کا درس دیتے دیتے انتہا کو پہنچ چکا اور اس عظیم راہ میں قربان ہوکر ہمیشہ کےلیے امر ہوگیا۔

کہتے ہیں جب انسان کا اس جہاں فانی سے رخصتی کا وقت آ پہنچتا ہے تب اس کی زندگی کے تمام اہم واقعات ایک شاندار جھلک کی صورت میں اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔چیئرمین کی شہادت کی خبر بھی مجھے گویا اسی بات کا ایک پہلو محسوس ہوئی کہ ان کی تمام باتوں اور ملاقاتوں کے منظر سے پروئی ایک جھلک ذہن میں نمودار ہوئی اور جسم میں سرایت کرتے ہوئے باقی نا رہی۔باقی رہا تو ایک نڈھال جسم اور غم و غصے سے اٹے خیالات سے بھرپور ذہن۔
انسانی زبان خیالات کی ترویج کےلیے مواصلاتی ذرائع ہے لیکن بعض اوقات یم ایسی کفیت سے دوچار ہوتے ہیں کہ الفاظ بے معنی ہوجاتے ہیں اور زبان اپنی بنیادی ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر اور سرخم نظر آتی ہے۔بے بہا جذبات دل ہی دل میں دفن ہوجاتے ہیں اور اس سب کا درماں خاموشی ٹھہرتی ہے۔کتابوں میں ایسی باتیں پڑھ پڑھ کر ان میں افسانوی طرز محسوس ہوتی ہے اور دل بھی اثر قبول کرنے سے عاری ہوتا ہے مگر اس کفیت کا بذات خود تجربہ بے شک طوفان خیز ہے ۔

پر پھر ذہن میں کسی انجان راہ سے خیال وارد ہوتا ہے کہ قربانیاں تو اس راہ کی اٹل حقیقت ہیں اور اگر ہم اپنے عزیزوں کی جدائی پر غمگین اور بے بس ہو جائیں گے تو ان کا پیغام مزید آگے کیسے پہنچے گا۔کوئی بھی لکھاری یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کے اس نے اپنے الفاظ سے کسی شہید کا تذکرہ کر کے اس کے زخموں سے رسنے والے خون کا حق ادا کردیا اور نا ہی کوئی مصور یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ قوم کی آزادی کی خاطر جان دینے والوں کے آخری لمحات میں ذہنی خیالات کی منظر نگاری کرسکتا ہے۔یہ زبان انسان نہیں سمجھ سکتا یہ ہنر تو بس پرندوں، درختوں،پہاڑوں،پھولوں اور سمندر کے حصے آتا ہے کہ جو اپنے چاہنے والے کو خود میں زم کر کے مزید دلکش بن جاتے ہیں۔

کتنی ہی یادیں ہیں کہ دماغ و دل میں روگرداں ہیں۔جب بھی چیئرمین کی تصویر سامنے آتی ہے تو لگتا ھے کہ جیسے وہ مسکرا کے کہہ رہا ہو کہ “جان میں نے اپنا حق ادا کردیا اب تمھاری باری ہے”.

آفتاب جان کے چئیرمین بننے کا دن یاد آتا ہے تو سوچتا کہ اگر مجھے اس بات کا علم ہوتا کے وہ اپنی راہ کا انتخاب کرچکے ہیں تو کیا میں یہ کہنے کی جسارت کر پاتا کہ “جان گلزمیں کی دی گئی یہ ذمہ داری قبول کرو اور اپنا حق ادا کرو”۔بھلا ایسی کٹھن راہ پر چلنے والوں کو ایسی تنبیہہ کرنا طفلانہ حرکت نہیں تو کیا تھی۔آفتاب جان کی جواباً مسکراہٹ کبھی ذہن کے پردوں سے اوجھل ہونے والی نہیں۔

ایک دفعہ گھر واپسی کے دن مجھے ایک کتاب ان تک پہنچانی تھی۔بارش بھی ہورہی تھی اور بس کا وقت بھی قریب تھا۔فون پر رابطہ ہوا تو سنگت نے کہا کہ آپ فلاں جگہ پہنچو میں آرہا ہوں۔میں وہاں پہنچا تو سنگت بارش میں کھڑے مسکراتے ہوئے میرا انتظار کر رہے تھے۔وقت کی قلت کی وجہ سے تفصیلی حال احوال نہیں ہو سکا اور نکلنا پڑا۔گھر سے واپس آتے ہی پہلی ملاقات میں آفتاب جان نے پوچھا کہ ” جان آپ نے چی کا وہ کتاب پڑھ تو لیا تھا نا؟” میرے ہاں کہنے پر مزید پوچھنے لگے کہ”جان چی کی “گوریلا جنگ” پڑھی ہے”۔میں نے کہا کہ” نہیں جان وہ نہیں پڑھی”. اس پر ساتھ بیٹھے ہمارے راھشون ماما کہنے لگے “جان پڑھنے کےلیے اور بہت کچھ ہے جب بندہ اس سطح پر پر پہنچے تو وہ کتاب پڑھے ورنہ کیا کرنا” ۔میں ماما کو دیکھ کر ہنسنے لگا ۔اب سوچتا ہوں کہ نہیں معلوم سنگت اس بارے مزید کچھ کہنا چاہتے تھے یا ویسے ہی استفسار کیا تھا۔پر پتہ نہیں کیوں اس بات میں بھی راہ کا انتخاب شاملِ حال لگتا ہے۔

ایک سنگت ان کو یاد کر کے کہنے لگے کہہ “اگر تم سوچتے ہو کہ کاش آج کے دور میں تم سنگت ثنا و زاکر مجید جیسے عظیم لوگوں کو دیکھ پاتے تو سمجھو تم نے چیئرمین آفتاب سے مل کر ان سے مل لیا۔ وہ اگر چاہتے تو اپنے خاندانی طاقت کو استعمال کرکے قوم کا استحصال کرسکتے تھے پر انھوں نے تمام چیزیں چھوڑ کر اپنی جان تک اس قوم کےلیے قربان کردی”.

میرے خیال میں انسان کے کسی عمل کے پیچھے دو طاقتیں کارفرما ہوتی ہیں۔اس عمل کا ایک عقلی تقاضہ اور دوسرا اس کا جذباتی پہلو۔اس بات کا تعین کرنا ناممکن ہے کہ آیا اس عمل کے پیچھے کتنے فیصد جذبات پوشیدہ ہیں اور کتنا عقلی استدلال ہمراہ ہے۔جذبات کی اپنی قدر سہی پر کچھ لوگ صرف جذباتی خلفشار کے طوفان میں بےکار بہے جاتے ہیں اور ان جذبات کو بروئے کار لا کر کو بہتر عملی جدو جہد نہیں کر پاتے۔لیکن چیئرمین کی نظریاتی پختگی کا یہ عالم تھا کہ میں نے کبھی انھیں غصے میں یا جذبات کے بہاؤ میں بے جا اور بے فائدہ بحث کرتے نہیں سنا اور ہمیشہ بے لوث طریقے سے انتظامی ذمہ داریاں انجام دیتے دیکھا۔

قومی حوالے سے ہر معاملے میں چیئرمین کو آگے دیکھا۔تعلیمی حوالے سے طلبا کو درپیش مسائل میں ہمیشہ ساتھ رہے۔اپنے علاقے میں طلبا کی کیریئر کونسلنگ کےلیے سیمینار منعقد کروایے اور اپنے ہی بل بوتے پر بہت سے طلبا کو تعلیم کےلیے شہر لائے اور کتنے ہی طالبعلم ان کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے۔لائبریری کا قیام ان کی کتاب دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔طالبعلموں کی سکالرشپ اور کوٹہ کےلیے احتجاج میں ساتھ رہے۔آنلائن کلاسز کے پیش رو انٹرنیٹ مسائل کے حل کےلیے احتجاج کرتے رہے۔ان کے ہر عمل میں ان کی قابلیت ایک اہم اور واضح جز تھی۔عسکری محاز پر بھی اتنے کم عرصے میں “فتح سکواڈ” میں ان کی شمولیت ان کی قابلیت کا ثبوت ہے۔سادہ مزاج،اخلاق،سادگی اور ہر دفعہ ملتے وقت چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ ان کے کردار کے نمایاں پہلو تھے۔آزادی کی اس راہ میں کتنے ہی ایسے اعلی کردار او بے لوث عظیم انسان قربان ہوئے ہیں اور ناجانے کتنی ہی قربانیاں ہیں کہ ابھی باقی ہیں۔

اس دور میں جہاں مروجہ تعلیمی نظام انفرادیت پسندی اور بے حسی کو فروغ دے رہا ہے ،ایک ورنا کا اپنے معاشی طور پر مضبوط خاندان کی آسائشوں کو نظر انداز کر کے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پس پشت ڈال کر قوم کے مستقبل کی خاطر بولان کے پہاڑوں کو مسکن بنانا اور جان قربان کرنا قومی شعور کی معراج نہیں تو کیا ہے۔حقیقی تعلیم کا مقصد ہی یہی ہے کے وہ انسان کو اپنی ذاتیات سے نکل کر اجتماعی فائدے کےلئے کام کرنے پہ آمادہ کرے۔آج بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک ایسے ہی تعلیم یافتہ و بے لوث نوجوانوں کے کاندھوں پر ہے۔

“مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا، جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما،
پہاڑوں کے بیٹے،
چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں، سنگ خارا کے ریزے ،
سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل،
شعاعوں ہواؤں کے زخمی،
چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں،
وطن وہ مسافر اندھیرا ،
جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر
کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے،
ندی بھی زر افشاں،دھواں بھی زر افشاں ،
مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما ،
ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں ،
تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں! “

اس راہ پر چلنے والا ہر اک ورنا پوری بلوچ قوم کےلیے مشعلِ راہ ہے اور وہ بلوچ قوم کے ہر فرد سے اس فرض شناسی کا تقاضہ کرتا ہے۔تحریک کو منزل کی طرف رواں دواں رکھنے کےلئے دشمن پر کمر توڑ حملوں میں شدت کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ بھاگ نکلنے پر مجبور ہوجائے اور اس کےلئے مسلسل وافر انفرادی قوت و وسائل جیسی کئی اور تنظیمی ضروریات کا پورا کرنا لازم ہے۔آج بلوچ قوم کے ہر فرد چاہے، وہ جس کسی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہے، کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنا حق ادا کرے۔آج قومی آزادی کی یہ تحریک جس کی کامیابی بے شک مکمل سماجی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں سرمچار سے لے کر ادیب و دانشور تک تمام افراد سے فرض شناسی کا تقاضہ کر رہی ہے کہ اجتماعی آزادی کےلیے اجتماعی قربانی واجب ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں