حسن کی ملکہ گل بی بی و سپہ سالار شاہسوار بلوچ کی گمشدہ عشقیہ داستان | عطا مہر

670

حسن کی ملکہ گل بی بی و سپہ سالار شاہسوار بلوچ کی گمشدہ عشقیہ داستان

تحریر: عطا مہر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی تاریخ میں تلوار کی گونج کبھی نہ تھم سکی، جنگوں میں پھلتے پھولتے خود بلوچ جنگوں کا اس طرح دیوانہ ہوا کہ جنگ کو باقاعدہ اپنی ثقافت کا حصہ بنا ڈالا، یوں جنگ بلوچستان کی سرزمین کا قومی کھیل بن گیا اور صدیوں تک بلوچ اس کھیل میں اس طرح مگن رہے کہ تاریخ کی جھولی جنگی داستانوں سے بھر گئی، بلوچ سماج میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا استقبال جنگی اشعار سے کیا جانے لگا، یوں ایک کان میں آذان تو دوسری کان میں جنگی داستانیں سن کر ہی بلوچ اس دنیا میں جینے کا آغاز کرتا.

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ جنگ کا شیدائی رہا ہے مگر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہ جو جنگ سے عشق ہے دراصل یہ عشق کی جنگ ہے، عشق سرزمین سے، عشق سالمیت سے، عشق حمیت سے، عشق غیرت سے اور عشق اپنی ملکیت سے.

پس! بلوچ کے دربار میں عشق نے جنگ کو جنم دے کر جنگ سے بلند و بالا مقام حاصل کرلیا یوں جنگ کی طرح میدان محبت میں بھی بلوچ نے کئی معرکہ سر کرلیے اور بلوچ تاریخ میں عشق کے خانے کو بھی خوب سیراب کیا.

جان لیجیے! بلوچ نے جو بھی کیا جم کر کیا ہے.

عشق کے انہی داستانوں کو آج بھی افتخار کے ساتھ بلوچ دہراتا و گنگناتا رہتا ہے، وہ کون سے بدبخت کان ہیں جنہوں نے اب تک حانی اور شے مرید کی داستان نہیں سنی، للّلہ اور گرناز کی داستان سے کون واقف نہیں، شہداد و ماہناز کا قصہ تو کب کا بلوچ کے روایتی نصاب کا حصہ بن چکا، سسی اور پنوں کی روداد اب تک بلا کون بھلا سکا، مست و سمو تو بلوچستان کے لیلی مجنوں ٹھہرے سو ان کی داستان ہر بلوچ کے دل میں امر ہے، پہاڑوں کی جگر چیرنے والے شیرین و فرہاد کی داستان تو بلوچ کا قیمتی ترین اثاثہ ہے، عزت و مہرک کے قصیدے تو آج بھی ہر بلوچ کے دامن سے پیوست ہیں.

غرض بلوچستان کا ہر بہتا چشمہ انہی داستانوں کی گن گاتا ہے جو بلوچ کے ہاں عشق کے معراج پر براجمان ہیں.

داستانوں کے انہی فہرست میں ایک ایسی داستان ہے جو وقت کے گبار میں دھندلاہٹ کی نظر ہوگیا ہے جس پر کم بولا و لکھا گیا ہے، آئیے آپ کے اسی گوھر نایاب داستان کی کھوج لگاتے ہیں.

وہ داستان ہے جنگ کے بیچوں بیچ شہداد و گل بی بی کی عشقیہ داستان. ایک تڑپا دینے والی داستان.

یہ داستان ہے سرحدی بلوچستان کی جو ایران کے جنوب مشرق اور افغانستان کے جنوب مغرب میں واقع علاقہ جات پر مشتمل ہے جسے تقسیم ہند سے پہلے سرحد (بلوچستان کے سرحد) کے نام سے جانا جاتا، تقسیم ہند سے پہلے یہاں بلوچ قبائل آباد تھے، ہر قبیلے کا اپنا سردار تھا، اپنے قوانین تھے اور اپنی فوج تھی، مضافاتی سلطنت ہندوستان میں انگریزوں نے اپنے پنجے گھاڑ دیے تھے، برصغیر کی سلطنت انہی کے پاس تھی، خطے میں کالونیزم وبا کی طرح پھیل رہی تھی، موجودہ بلوچستان بھی شکنجے میں آ چکی تھی، ریاستی بلوچستان و برٹش بلوچستان کا ڈھونگ رچ چکا تھا، ہر طرف سازشوں کا دور دورہ تھا، آزاد منش بلوچ نے بھی جنگ کا شعلہ بجھنے نہیں دیا تھا، دنیا تیل، گیس اور تجارت کی جنگ میں دھنس چکی تھی بالاخر 1914 میں جنگ عظیم اول نے دنیا کو لپیٹ لیا.

دنیا وسائل کی جنگ میں نکلے اور سازشوں کا رخ بلوچستان کی طرف نہ ہوں ایسا ہو نہیں سکتا سو نظریں جم گئیں، مقام بلوچستان تھا، مسکن پہاڑ تھے اور آبادی بلوچ کی تھی سو ایک ایسے شخص کا انتخاب ضروری تھا جو دجالی صفات کا مالک پیچھے مڑ کر دیکھنے والا نہ ہو، بدنام زمانہ ظالم جنرل ڈائر بہترین انتخاب تھی، حکومت برطانیہ نے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں جرمنی کے اثر رسوخ کو ختم کرنے کے لیے بریگیڈیئر جنرل ڈائر کو بھیج دیا، جنرل ڈائر نے بلوچوں کو لہولہان کردیا، کئی جنگیں لڑیں، لوٹ مار کا بازار گرم کیا، بزرگوں کی عزت کو اچھالا، علاقوں میں دھاوا بول دیا، قلعوں کو مسمار کیا مگر مسرور کن بات یہ ہے کہ بلوچ نہ جھکے، فصلیں تباہ کی گئیں، مویشیاں لوٹ لی گئیں، چشمے مسمار کردیے گئے پر بلوچ نے مفاہمت پر مزاحمت کو ترجیح دی بالآخر جنرل ڈائر پلٹ گئے.

متذکرہ داستان جنرل ڈائر کے اسی جنگی محاذ کا ایک حصہ ہے جسے جنرل ڈائر نے اپنی کتاب ریڈرز آف دی سرحد میں شامل کیا ہے، مذکورہ کتاب کو بریگیڈیئر جنرل ڈائر نے بلوچستان میں اپنی سرگزشت کے طور پر لکھا ہے، یہ کتاب 1921 میں لندن میں چھپی ہے اور گل خان نصیر نے اس کا اردو ترجمہ ”بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار اور گوریلا جنگجو “ کے نام سے کیا ہے.

اس کتاب میں جنرل ڈائر نے تفصیل سے بلوچ سماج، بلوچ کی نفسیات، جنگی مہارت، اپنی مکاریوں، چال بازیوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں پر مفصل بحث کی ہے جنہیں پڑھنے کے بعد کوئی نارمل انسان مشکل سے اپنے آنسوؤں کو ضبط کرسکتا ہے کہ آزادی کے متوالے ان سادہ لوح بلوچوں نے اپنی سالمیت کے لیے کیا کیا قربانیاں دی ہیں، اپنی فصلوں میں چھپی اس بوڑھی عورت نے تو جنرل ڈائر کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے حملے کے ڈر سے پورا قبیلہ علاقہ خالی کرکے نکل جاتا ہے اور اپنا سب کچھ ساتھ لے جاتا ہے اگلی صبح جب جنرل ڈائر علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو اسے پورا علاقہ خالی و سنسان ملتا ہے سوائے ایک بوڑھی عورت کے جو فصلوں کے اندر چھپا دکھائی دیتے ہیں جنرل ڈائر اس اکیلی عورت سے یہاں چپھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتی ہیں کہ سب نکل گئے مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی زمین کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی اور یہیں بیٹھ کر آپ کے حملے کا انتظار کرتی رہی.

آہ! ایک عمر رسیدہ بلوچ عورت اپنے زمینوں کا پاسباں ٹہری.

بوڑھی عورت کے اس کردار نے مجھے اس طرح متاثر کیا کہ میں یہاں موضوع سے ہٹ کر اس کا تذکرہ کیے بنا نہ رہ سکا، مدعا گل بی بی اور شہداد کی داستانِ محبت تھی سو اسی کی طرف واپس پلٹتے ہیں.

گل بی بی اور شہداد یار محمد زئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو سرحد کے درمیانی حصے میں کئی علاقوں پر مشتمل ایک سلطنت میں رہتے تھے، یہ علاقہ یار محمد زئی قبیلے کے پاس تھی، جنرل ڈائر کے مطابق قبیلے کا سردار میر جیئند خان تھا جو ایک عمر رسیدہ شخص تھے اور کئی سالوں سے تمام سرحد کا غیر متنازع سردار رہ چکے تھے.

شاہسوار اس قبیلے کا مشہور چھاپہ مار جنگجو اور سردار جیئند خان کے قریبی رشتہ دار تھے، وہ خواش کے مالک اور گورنر بھی رہ چکے تھے (خواش سرحد کا صدر مقام تھا، جو یار محمد زئی قبیلے کے زیر اقتدار والے علاقے میں واقع ہے) شاہسوار کو گل گل بی بی نامی ایک حسین، بہادر، نڈر اور ذھین لڑکی سے عشق ہوجاتا ہے، عشق جب شدت اختیار کرتی ہے تو شاہسوار گل بی بی کا گرویدہ ہوجاتا ہے، مگر گل بی بی پہلے ہی سے حسن نامی اپنے ایک رشتہ دار کی منگیتر ہوتی ہیں، یہ امر شاہسوار کے مشکلات بڑھا دیتے ہیں وہ گل بی بی کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہوتے ہیں اور پہل کرتے ہوئے گل بی بی کی منگیتر حسن سے بات کرتے ہیں، گفت و شنید کے بعد حسن شاہسوار کی محبت کو بھانپ لیتے ہیں اور اس سے ایک ایسا مطالبہ کرتے ہیں کہ عام حالت میں جس کو پورا کرنے کے لیے لہو بہانے کی ضرورت ہوتی ہے، بھاری بھرکم فوج درکار ہوتی ہے، جنگیں لڑی جاتی ہیں، تخت و تاراج کرنا مشروط ہوتی ہے، مگر حسن بنا کچھ کہے محض گل بی بی کی قیمت میں ایسی چیز طلب کرتے ہیں جو شاہسوار کا سرمایہ سب کچھ ہوتا ہے.

خواش… حسن گل بی بی کے بدلے میں شاہسوار سے خواش کی حاکمیت کا مطالبہ کرتے ہیں، ایک جنگجو سپاہی سے اس کا علاقہ طلب کرتے ہیں، ایک بہادر بلوچ سے اس کے تخت کا سوال کرتے ہیں، شاہسوار ب عشق و ملکیت کے سرحد پر آزمائش میں پڑ جاتے ہیں، ایک طرف خواش ہوتی ہے جس کے حصول کے لیے لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرکے انگریز بھی سر کٹانے کے لیے تیار ہوتا ہے تو دوسری جانب حسن و دانائی کا امتزاج گل بی بی (پھولوں کی ملکہ) ہوتی ہیں جس کے دانائی پر انگریز بھی سر پکڑ کر بیٹھا ہوتا ہے اور حسن تو اسے اور بیش بہا بنا دیتی ہے.

شاہسوار کشمکش کا شکار ایک ایسے جنگ میں پڑ جاتے ہیں جہاں نا تلوار ہوتی ہے نا اسپر دکھائی دیتا ہے، نا سپاہی ظاہر ہوتے ہیں نا کوئی شاہسوار نمودار ہوتا ہے بلکہ یہ جنگ بنا تیغ و تلوار کے عشق کی جنگ ہوتی ہے اور عشق تو وہی ہوتا ہے جس کے بطن ہی سے جنگ جنم لیتی ہے اس لیے عشق کا غالب آنا یقینی ہے سو فتح عشق کی ہوتی ہے، شاہسوار گل بی بی کا انتخاب کرتے ہیں اور خواش کی کنجی حسن کے حصے میں جاتی ہے.

جس گل بی بی کے لیے شاہسوار اپنا علاقہ قربان کردیتے ہیں وہ ایک شخص نہیں بلکہ مکمل شخصیت ہوتے ہیں، آپ کے دوراندیشی کی مثالیں دور دور تک پھیلی ہوتی ہیں، آپ جنگی امور کی ماہر ایک نڈر خاتون ہوتی ہیں.

جب جنرل ڈائر دھوس دھمکیوں اور جنگی چالبازی سے خواش پر قابض ہوتے ہیں تو میر جیئند خان بھی خاموش نہیں رہتے، ہربار اپنی بکھری ہوئی فوج کو مجتمع کرکے جنگ کا کھیل کھیل لیتے ہیں، خواش کو حاصل کرنے کے لیے دوبارہ فوج جمع کرتے ہیں، جم کر تیاری کی جاتی ہے، شاہسوار اس پورے مرحلے میں پیش پیش ہوتے ہیں، انگریز کو بھی خبر لگ جاتی ہے، دونوں اطراف خوب منصوبہ بندی ہوتی ہے، انگریز کی فوجی قوت بہت کم ہوتی ہے، جبکہ بلوچ اکثریت میں ہوتے ہیں، دن قریب آتے رہتے ہیں جنگ کی تیاریاں اور بڑھ جاتی ہیں انگریز سمجھ جاتا ہے کہ اگر بلوچ نے ایک دفعہ چڑھائی کی تو انہیں شکست دینا ناممکن ہوگا اس لیے جنرل ڈائر ایک دفعہ پھر پروپیگنڈے کا بازار گرم کرتے ہیں، اپنی موٹر کار کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر متعارف کرتے ہیں اور یہ بات عام کی جاتی ہے کہ ایک بٹن دبانے سے یہ چاروں اطراف سے گولیاں برسانا شروع کرے گا، سادہ لوح بلوچ کا ہتھیار اس کا جزبہ ہوتا باقی ماندہ ٹیکنالوجی کا مالک انگریز کے پاس ہوتی ہے ، اپنے چالبازیوں سے انگریز اپنے کم فوجی تعداد کو پانچ ہزار نفر ظاہر کرتا ہے، بلوچ یقین کرتے ہیں، خود کے دفاع کے لئے انگریز اس طرح کے کئی چال چل لیتا ہے اور اس طرح جنگ ٹھل جاتی ہے اور بلوچ اپنے حملے کو ملتوی کرتے ہیں.

بات گلابوں کی ملکہ (گل بی بی) تک پہنچ جاتی ہے، گل بی بی صورتحال کو بھانپ لیتے ہیں کہ انگریز نے شاطر دماغی سے کام لیا ہے اور راست گو بلوچ ایک بار پھر دھوکے میں آگئے ہیں.

جنگ کا ارادہ ملتوی کرکے جب جیئند اور شاہسوار واپس اپنے پڑاؤ میں آتے ہیں تو گل بی بی ان کو خوب کوستے اور لتاڑتے ہیں کہ وہ محض بہکاوے میں آکر بے وقوف بنے اور جنگ کو موخر کیا اس حوالے سے کتاب میں درج ہے کہ

”اب یہ ایک کھلی حقیقت اور عام بات ہے کہ جرنیل صاحب صرف مٹھی بھر آدمیوں کے ساتھ یہاں پہنچے اور محض فریب دے کر ان سے ہتھیار ڈلوا لئے، گل بی بی نے بات یہیں پر ختم نہیں کی بلکہ اس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے جیئند سے کہا کہ اگر اس میں چوہے کا بھی دل ہوتا تو وہ گزشتہ شب یا دوسرے دن صبح کو حملہ کرکے خواش پر قبضہ کرلیتا کیونکہ جرنیل کی مختصر سی فوج سورج کے خوب بلند ہونے تک وہاں نہیں پہنچ پائی تھی.“

گل بی بی جیسی باہمت خاتون اپنے شوہر اور سردار کے اس ہار سے دل برداشتہ ہوجاتی ہیں آپ کی شجاعت یہ گورا نہیں کرتی کہ آپ شکست پر خاموش رہیں اس لیے آپ فوراً فیصلہ کرتی ہیں کہ چونکہ ان کے قبیلے کے مقابلے میں جنرل ڈائر نے بردباری سے کام لیا ہے اس لیے وہ اس فتح پر اسے انعام پیش کرنے کا اعلان کرتی ہیں اور جنرل کو دو دنبوں کی پیشکش کرتی ہیں، گل بی بی کے شوہر اور سردار سمیت کوئی ایسا شخص نہیں ہوتا جو آپ کے فیصلے کو مسترد کرے، جلد ہی دنبے انگریز جرنیل کے پاس پہنچائے جاتے ہیں جنرل ڈائر اپنی شان بلند کرتے ہوئے یہ دنبے لینے سے انکار کرتے ہیں مگر آپ مقامی دلّار عیدو اس حرکت پر اسے منع کرتے ہیں اور گویا ہوتے ہیں کہ

”آپ اب تک گل بی بی کو نہیں جانتے، وہ سرحد کی بارسوخ شخصیت ہیں، اگرچہ وہ ایک عورت ہے لیکن دنیا کی خوبصورت ترین عورت بھی ہے.“

جرنیل دنبوں کو قبول کرتے ہیں اور باہمی مشاورت کے بعد بدلے میں گل بی بی سے ملنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے.

جنرل ڈائر اپنے ساتھی کو کہتے ہیں کہ

” آپ بھی میرے ساتھ آئیں گے میں ایک شادی شدہ آدمی ہوں اور میں اکیلا دنیا کی خوبصورت ترین عورت سے ملنے نہیں جاؤں گا اگر چہ وہ پردے میں ہوگی، یہ سن کر عیدو جواب دیتے ہیں کہ گل بی بی اپنے حسن کو بہت گرانقدر سمجھتی ہے اور اسے چھپانا نہیں چاہتی میں آج رات کو اسے اطلاع دوں گا کہ آپ اور آپ کا میجر ساتھی آپ سے ملنے آئیں گے.“

جنرل ڈائر اور گل بی بی کے ملاقات کی روداد کتاب میں اس طرح درج ہے

”دوسرے دن ہم گل بی بی اور دنیا کی خوبصورت ترین عورت سے ملنے روانہ ہوئے، وہاں سے آدھے راستے پر شاہسوار ہمارے استقبال کو آئے اور ایک بہت بڑی جھگی کی طرف ہماری رہنمائی کی، جھگی کے اندر ہم نے اس مشہور حسینہ کو رنگ برنگے گدملوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا، میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ عیدو نے اس سے متعلق کوئی مبالغہ نہیں کیا ہے، گل بی بی ایک خوبصورت نوجوان عورت تھی، بہت حسین، روشن چہرہ، تقریباً یونانی خدوخال، غیر معمولی نگاہیں اور بڑی بڑی آنکھوں والی ایک حسینہ تھی، گو بظاہر وہ چھوٹے قد کی تھی لیکن اس کے اعضاء اور ہاتھ بہت خوبصورت تھے، اسے اپنی محسور کن دلربائی کا صریحی طور پر علم تھا، اس کا لباس سفید تھا جس پر کشیدہ کاری کی گئی تھی، سر پر اس نے ایک گشان (دوپٹہ) ڈال رکھا تھا جو خوبصورت تہوں میں تھا لیکن اس کے چہرے کو چھپاتا نہیں تھا، شاہسوار نے ہم میں سے ہر ایک کا تعارف کرایا اور ہم تعظیماً سلام کو جھکتے رہے اور پھر اس کے دعوت دینے پر اس کے سامنے نیم دائرے کی شکل میں زمین پر بیٹھ گئے، اس کے بعد انہوں نے تقریر کی اور ہم نے جواب دیے. گل بی بی نے ہمارے سامنے علے الاعلان اپنے خاوند (شاہسوار) سے کہا کہ اسے دھوکا دے کر عاجز کردیا گیا ہے اور وہ ایک ایسا بے وقوف شخص ہے جس میں دانشمندی کا فقدان ہے، مگر شاہسوار صرف ہنستا رہا، اپنی بیوی کی باتوں کو وہ دلگی اور مذاق میں اڑاتا رہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گل بی بی نے اسے پوری طرح اپنے انگوٹھے کے نیچے دبا رکھا ہے اور وہ بھی اس کی بڑی عزت کرتا ہے.“

ڈائر ایک متکبر، ڈکٹیٹر اور سفاک جرنیل تھے، آپ کسی ادنیٰ سے مسئلے پر سرحد کے تمام معتبرسرداروں کو اپنی دربار میں طلب کرتے اور انہیں خوب لتاڑتے مگر جب بات گل بی بی کی آئی تو ڈائر کی آمرانہ شخصیت بالکل عاجز ہوگئی اور فیصلہ کیا گیا کہ اپنے خاص عملے کے ہمراہ گل بی بی کے دربار میں حاضری دینے تشریف لے جائیں، یہی نہیں بلکہ ملاقات سے ایک پہلے اپوائنٹمنٹ بھی طلب کی جاتی ہے.

اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ گل بی بی ایک غیر معمولی شخصیت کی مالک تھیں، آپ حسن و خوبصورتی کے علاؤہ سماجی مرتبت میں بھی بلند و بالا مقام رکھتی تھیں، آپ کے لیے شاہسوار نے خواش کی حکمرانی چھوڑ دی، قبیلے کے سردار میر جیئند خان کو آپ جنگی حکمت عملی سکھاتیں اور قابض جنرل ڈائر نے خواش پر قابض ہوکر بھی گل بی بی کے دربار میں حاضری دی اور تعظیم میں گل بی بی کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوئے.

مندرجہ بالا سطور سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ سرحد کا پاسباں شاہسوار گل بی بی کی عشق میں حد سے زیادہ فدا تھے وہ آپ کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار تھے حتی کے بھری مجمع میں گل بی بی انہیں کوسنے، طعنے دینے اور مذاق اڑانے سے گریز بھی نہیں کرتے، شاہسوار جواباً مسکراہٹ سے گل بی بی کا جواب دیتے.

اس سے قارئین گرامی گل بی بی اور شاہسوار کے عشق کو یکطرفہ سمجھنے کی غلطی نہیں کریں کیونکہ آگے چل کر گل بی بی اپنے عشق کو دوام بخشنے کے لیے اس حد تک جاتی ہیں کہ جس سے راقم الحروف اپنی آنسوؤں کو ضبط نہیں کرسکا.

چونکہ جنرل ڈائر بلوچوں کو مغلوب کرنے کی غرض سے سرحد پر وارد ہوتے ہیں اس لیے وہ انہیں زدکوب کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں، اسی طرح وہ شاہسوار پر بھی ایک دن یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ وہ جرمن فوج سے رابطے میں ہیں اور انگریز کی جاسوسی کر رہے ہیں، ثبوت یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کے سپاہیوں نے ایک دن شاہسوار کو گھوڑے پر چند خطوط پہنچاتے ہوئے پکڑ لیا ہے جو جرمن افواج کو پہنچانے کے لیے جا رہے ہوتے ہیں.

جنرل ڈائر طیش میں آکر شاہسوار کو طلب کرتے ہیں، کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، عدالت لگائی جاتی ہے اور سنوائی شروع کی جاتی ہے، شاہسوار کو مجرم ثابت کیا جاتا ہے اور اسے گولی مارنے کا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔

فیصلے کی روداد انگریز کے زبانی ملاحظہ کیجئے

”موت کا سزا سنانے کے بعد جب میں نے شاہسوار پر ایک نظر ڈالی س کے چہرے پر پسینہ بہہ رہا تھا بہت کم آدمی فوری موت کا فیصلہ سن کر کسی قسم کے جزبات کا اظہار کئے بغیر رہ سکتے ہیں مگر اس نے افّ تک نہیں کی، یہ ماننا پڑے گا کہ اس نے ایک بہادر انسان کے کردار کا مظاہرہ کیا اور ایک ایسے اشارے سے جس سے صبر و شکر کا اظہار ہوتا تھا اس نے ملا سے کہا کہ جلدی لکھنا شروع کرے اور وہ اپنی آخری خواہشات لکھواتا رہا.“

عشق ایک دفع پھر سولی پر آچکی تھی، محبت مرگ و زیست کی دہلیز پر آخری سانسیں گن رہی تھی، کاتب آخری خواہشات رقم کر رہا تھا، مجرم صبر و استقلال سے الفاظ دہرا رہا تھا، اس کے لیے زندہ رہنے کی سری امیدیں دم توڑ چکی تھیں، وہ بلوچی شان سے مرگ قبول کرچکا تھا، یہ وہ شاہسوار تھا جس کے آنکھوں کے سامنے خواش کا وہ قلعہ تھا جس کے وہ حاکم رہ چکے تھے، جہاں وہ خود دربار لگاتے، سنوائی سنتے اور فیصلے کرتے تھے، پھر ایک وقت وہ آیا جب یہ قلعہ اس نے گل بی بی کے عشق پر نثار کردیا، آج یہی قلعہ اس کی موت کا منظر دیکھ رہا تھا، عشق عجب کشمکش میں تھی، شاہسوار تو عشق میں اپنی جھولی خالی کرچکے تھے اس سے بڑی قربانی تو اور تھی ہی نہیں اب باری ملکہ حسن، گوھر نایاب، شیر زال بلوچ گل بی بی کی تھی، محبت خراج مانگ رہی تھی، عشق سکرات میں تھی، ماتم کی گھڑی قریب سے قریب تر آرہی تھی، انگریز اپنے جلال میں تھے، بلوچوں کا خون ان کی نبضوں میں بہنے کے بجائے آنکھوں سے ٹپک رہے تھے، اب کرشمہ ہی وقت کی کھایا پلٹ سکتی تھی، اتنے میں حسن دیوی انگریز کے دربار میں نمودار ہوئی، یہ گل بی بی کی آمد تھی، دیکھنے والے ہکہ بکہ رہ گئے، اب وہ وقت آ چکا تھا کہ محبت کو امر کیا جائے سو گل بی بی دشمن بلوچ بریگیڈیئر جنرل ڈائر کے قدموں میں گر پڑی، آہوں، سسکیوں اور التجاؤں کا بند ٹوٹ چکا تھا، گل بی بی کے پاک آنسو انگریز کے گنہگار قدموں میں بہہ رہے تھے.

یہ وہی گل بی بی تھی جس نے جنگ میں شکست تسلیم کرنے پر شاہسوار کا استقبال تند و تیز طعنوں کیا تھا، یہ وہی گل بی بی تھی جس کے دربار میں بریگیڈیر جنرل ڈائر اپنے عملے سمیت حاضری دینے کی غرض سے حاضر ہوئے تھے، یہ وہی گل بی بی تھی جس کے ہاں انگریز کے سر بھی تعظیماً جھک جاتے تھے آج یہی سر انگریز کے قدموں پر تھی اور شاہسوار کی زندگی کا سوال کر رہی تھی، اس منظر کے آگے خواش کا وہی قلعہ تھا جس کو شاہسوار نے چھوڑ کر گل بی بی کا انتخاب کیا تھا، آج اسی قلعے کے سامنے قربانی کی باری گل بی بی کی تھی، سو وہ تمام حدیں پار کر گئیں، خواش کے اطراف میں پھلنے والی وہ محبت جسے یکطرفہ سمجھا جاتا تھا آج اپنی تکمیل کو پہنچ چکا تھا، یہ ناممکن تھا کہ گل بی بی آتی اور خالی ہاتھ واپس نکل جاتی، انگریز نے شاہسوار کی سزائے موت کو ختم کیا اور اسے گل بی بی کے حوالے کردیا گیا اس طرح دنیا کی خوبصورت ترین عورت کے ساتھ خواش کے سپہ سالار واپس اپنے قبیلے کی طرف چل پڑا.

یوں بلوچ عشّاق کے کاروان میں ایک اور داستان گل بی بی و شہداد کی داستان درج ہوئی جسے دیکھ کر انگریز جرنیل بھی حیرت زدہ تھے.

آئیں اپنے انہی گمنام سپوتوں کو یاد کریں جنہوں نے ہمارے لیے تاریخ رقم کردی مگر ہماری تاریخ ہے جو انہی کو بھلا بیٹھی.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں