بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4359 دن مکمل ہوگئے۔ سوراب سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی کارکن اللہ بخش بلوچ، عبدالسلام بلوچ اور دیگر نے کمیپ میں آکر اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کیلئے آنے والوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے چہرے جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کا بہروپیا کا ماسک چڑھا کر اس ریاست کی دہشتگردی کو چھپانا ہے تاکہ رائے عامہ خصوصاً بین الاقوامی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاسکے –
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں پاکستانی سیکورٹی دستوں کی مارو پھینک دوں پالیسی، بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے کی ظالمانہ کارروائیوں، بلوچ فرزندوں کی جبری لاپتہ کرنے بلوچ سیاسی کارکنوں طالب علم رہنماؤں، صحافیوں اور شہری حقوق کے حامی بلوچ فرزندوں کو نشانہ بنائے جانے کی نشاندہی اور ان انسانیت سوز ریاستی کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ صرف بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاستی دہشت گردی عالمی سطح پر بڑی تک بے نقاب ہوچکا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ یہ زمین ان سسکتی روحوں کا وارث ہے یہ زمین بھی دیکھے گی کہ بلوچ کے رنگ خون سے لت پت زمین کیونکہ جب بھی کسی انسانی حقوق کے دیوانے کا سربریدہ جسم ملا تو اسی زمین نے دامن پھیلائے اسے اپنی آغوش میں لیا اور اپنے مہربان گود میں سلایا اس زمین کو بھی حق ہے کہ وہ شادمانی کے دن دیکھے –
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سرزمین پر کشت خون کا بازار گرم رکھنا بلوچ قوم کو قومی حقوق کی جہد سے دستبردار نہیں کرسکتا ہے –
انہوں نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گا –