بلوچ سراپا مزاحمت
تحریر : اسد واھگ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ ایک بہادر اور غیرت مند قوم ہے۔ وہ نہ کبھی کسی کے غیرت پر حملہ کرتا ہے اور نہ اپنی غیرت پہ حملے کو برداشت کرتا ہے۔ اگر کوئی بھی طاقت ور اس کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہو تو وہ اس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ آج بلوچ قوم کا ہر گھر گدان مزاحمت کی نشانی ہے۔
بلوچ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس نے کبھی اپنے دشمن سے گلہ شکوہ نہیں کیا ہے وہ ہمیشہ سے اس کی ظلم کیخلاف سراپا مزاحمت ہے۔ بلوچ قوم تاریخ کے مزاحمتی دور سے گزر رہا ہے اور ہر نا انصافی کیخلاف سرمچار ہے۔
27 مئی کو جب پاکستانی فوج اپنی پوری طاقت کے ساتھ کیلکور کے کئی علاقوں میں آپریشن کا آغاز کرتا ہے تو دوران آپریشن وہ مردوں کو گھروں میں قید کرکے کئی بلوچ خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ اس انسانیت سوز بربریت کے دوران جب پیر جان ولد میر احمد نے اپنی بیٹی کو جنسی زیاتی سے بچانے کے لئے مزاحمت کرتا ہے تو ظالم دشمن فوج کے اہلکاروں نے اسے تشدد کرکے شہید کیا۔ ایک باپ اپنی بیٹی کے غیرت پر حملے کو کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے دو اور بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرکے بعد ازاں انہیں شہید کیا۔
پچھلے سال 21 دسمبر دو ہزار بیس کو پاکستانی فوج نے کیلکور کے علاقے حاجی آباد میں شہید میر مراد بازار میں آٹھ بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا، ان میں سے ایک آٹھ سالہ کمسن بچہ بھی شامل تھا جس کی جسد خاکی کو فیملی کے حوالے کرنے کے بجائے خود درندہ فوج نے کہیں دفن کر دیا۔ اسی آپریشن کے دوران فوج نے کیلکور کے علاقہ مادگ میں تین اور بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیا ان میں دو بھائی اور ایک کزن تھا اور ان تینوں کو بھی شہید کردیا گیا۔
سات سال قبل یعنی دو ہزار چودہ کو اسی ظالم فوج نے کیلکور کے ہی علاقے حاجی آباد میں آپریشن کرکے حیر محمد نامی بلوچ کے دو کمسن بچوں کو شہید کیا تھا جن کے عمریں قریباً تین سے چار سال تک تھیں۔ سال دو ہزار سترہ کے سترہ اگست کو کیلکور کے ہی علاقے شینزدان میں فوجی آپریشن کے دوران ایک بلوچ خاتون کو اس وقت شہید کیا جب قابض پاکستانی ائر فورس ہیلی کاپٹروں کے زریعے شیلنگ کر رہے تھے۔ اس بلوچ خاتون نے بہادری سے آگے بڑھتے ہوئے یہ کہا کہ “ہم اپنے حق پر ہیں اگر تم مجھے مارنا چاہتے ہو تو مارو” ظالم فوج نے اسے وہیں شہید کیا۔
ان تمام واقعات سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قابض دشمن کی حواس باختگی کی یہ انتہا ہے۔ وہ بلوچ قومی تحریک سے بری طرح شکست کھا چکا ہے۔ وہ شکست کے ایسے دہانے پر کھڑا ہے جیسے کوئی سڑھیلا دیوار ‘جسے صرف کوئی زبردست دھکہ دے تو ڈھیر ہوجائے۔ دشمن کی بوکھلاہٹ کی سب سے بڑی اور حقیقی وجہ بلوچ فرزندوں کی جاری مزاحمت ہی ہے۔
بلوچ نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ اس مزاحمت کا حصہ بن کر، اپنی تمام تر توانائی کو استعمال عمل میں لا کر اسے مزید منظم بنائیں تاکہ قبضہ گیر دشمن اور اس کے کئے گئے ظلم کا خاتمہ یقینی ہوجائے۔ بقول ماؤزے تنگ کے ” تمام رجعت پسند دشمن باہر سے ڈراؤنے اور خوفناک دکھتے ہیں لیکن اصل میں بودے ہوتے ہیں۔ طاقت صرف عوام ہی کے پاس ہے۔” اور یہی سچائی ہے کہ ہمارا دشمن بھی باہر سے ڈراؤنا دکھتا ہے مگر اندر سے کھوکھلا ہے ‘ لیکن ہماری قوم کو یکجہتی کیساتھ مزاحمت کرکے اسے ڈھیر کرنا ہے کیونکہ پوری بلوچ قوم ہی اصل طاقت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔