آج بولان نازاں ہے | (پہلا حصہ) – سلال بلوچ

468

آج بولان نازاں ہے

پہلا حصہ

تحریر: سلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بولان گیت گا رہا ہے، بولان رقص کر رہا ، بولان شہیدوں کی قربانی پر جھوم رہا ہے، بولان کا سر فخر سے آسمان کو چُھو رہا ہے، بولان آج شہدائے مارواڑ کے بہادری کی داستان کوہِ بمبور و کوہ شاہموز کو سنا رہا ہے، کہ میرے سینے پر دشمن نے جو ناپاک قدم جما کر اپنی قبضہ گیری کو دوام دے رہا تھا، وہ میرے لیے میری بلندی کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ ثابت ہو رہا تھا، میں تو بلوچ قوم کا فخر ہوں، میرے لیے تو بلوچ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہا ہے، بلوچ قوم کی بقا کی خاطر میری بلندی کو قائم رہنا ہے، جب جب میری تکالیف میں اضافہ ہوا ہے، جب جب مجھے محسوس ہوا ہے کہ میری بلندی کو قبضہ گیر پنجابی دشمن للکار رہا ہے، تب تب بلوچ قوم کے بہادر نڈر اور غیرت مند ورناؤں نے میری بلندی کو برقرار رکھنے کے لئے دشمن کے ناپاک عزائم کو روکنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، کبھی بھی میرے جُھکانے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا ہے، بلکہ بے دریغ اپنا خون بہایا ہے تاکہ میں (بولان) بلوچی دفتر ہمیشہ سر فخر سے بلند کر سکوں –

مسلسل دو دہائیوں سے مستقل مزاجی سے چلنے والی اس بلوچ جہد میں میں ( بولان) نے بلوچ سرمچاروں کو اپنے کوکھ میں پناہ دے کر بلوچ قوم کی بقا کو برقرار رکھا ہے – بلوچ سرمچاروں نے میری امیدوں اور خواہشوں کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچایا بلکہ ہر وقت میری بلند و بالائی کے صفت کو برقرار رکھتے ہوئے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہوئے جس کی وجہ سے دشمن کبھی بھی اپنے بُرے عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے-

بولان آج کوہِ شاہموز و کوہِ بمبور سے حوِ گفتگو ہے، بولان آج شہید سارنگ، شہید وشین و شہید ہِنگل مری کی جرات مندی و دلیری کو تاریخ کے پَنوں پر قلمبند کرانا چاہتا ہے، جن پَنوں پر میں ایک ادنیٰ سا لکھاری اِن شہداء کی بولان میں جنگ کے دوران اور بولان میں گزارے ہوئے چند مہر و محبت کے دن قلمبند کرنا چاہتا ہوں-

تینوں شہداء کے ساتھ کچھ مہینے زندگی کے پُر مہر لمحات گزارے جہاں اُن کی بہادری و وطن سے بے انتہاء محبت کو بہت قریب سے دیکھا میں شاید اُن کی خُلوص کو الفاظ میں بیان نہ کر سکوں، کیونکہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ اُن کی تعریف میں وہ الفاظ نوشتہ کر سکوں، اُن کے کردار کے سامنے میرے علم میں وہ الفاظ نہیں جو اُن کی وطن سے عشق کو بیان کر سکوں –

شہید سارنگ چار ماہ بولان کی خوبصورت ترین پہاڑوں میں اپنے بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کو روکنے اور دشمن پاکستانی فوج کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہا تھا، اس دوران شہید سارنگ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا – وہ کم عمری میں بے شمار صفات کا مالک بن چُکا تھا، کم وقت میں محاذ کے سنگتوں سے گُھل مل کر ایڈجسٹ ہو چُکا تھا، اپنی ذہانت اور بہترین جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے ” فتح اسکواڈ ” کا حصہ بن چکا تھا- تنظیمی فیصلے کے مطابق شہید سارنگ شہری سیلوں سے نکل کر بولان کے محاذ پر اپنا ڈیوٹی نبھانے کے لیے پہنچ چُکا تھا – شہر کی پُر آسائش زندگی کو خیر باد کہہ کر پہاڑوں کی پُر کَٹھن زندگی اپنے لیے بہتر تصور کرتا تھا – پہاڑوں کی پُر کَٹھن و سخت حالات کبھی بھی شہید سارنگ کو کمزور نہ کر سکیں ، کیونکہ شہید سارنگ کا فکر بولان و کوہ شاموز کی طرح آسمان کی چوٹیوں کو چُھو رہا تھا – مختلف ذرائع سے شہید سارنگ کو جنگ چھوڑ کر واپس شہر آنے اور پُر سکون زندگی گزارنے کے لیے بار بار کہا گیا لیکن وہ ایک شعور سے لیس ایک با ہمت و غیرت مند سرمچار تھا جو اس وطن کی مَٹی سے وفا کرکے بولان کی خاک میں دفن ہونا چاہتا تھا لیکن دشمن کے سامنے سر جُھکانا نہیں –

شہید سارنگ شہید دلجان کا پیروکار تھا اور شہید دلجان کے کردار سے نزدیکی سے واقف تھا، اور اپنے جہد کے دوران وہ اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کے لیے وقف کر چُکا تھا جس طرح شہید دلجان نے اپنی جان بلوچ قوم و وطن کی بقا کے لیے آخری گولی اپنی حلق میں اُتار کر امر ہو چُکا تھا- بالکل ایسے ہی شہید سارنگ اپنی زندگی قوم کے نام کردیا اور اپنے مقصد میں ثابت قدم رہا-

محاذ پر دوران سفر دن رات پیدل چلنے اور سفر کی مشکلات شہید سارنگ کو کبھی کمزور نہ کر سکے، اور نہ ہی کبھی اُن کے چہرے پر کوئی مایوسی نظر آئی، نہ وہ تَھکے نہ وہ ہارے، بلکہ شہید سارنگ کا ہر قدم دشمن کے تباہی ثابت ہو رہا تھا،اور مسکراہٹ اور دیدہ دلیری سے اِن حالات کا مقابلہ کرکے وہ زہری اور جہد آجوئی بلوچ کی تاریخ میں ایک سنہرا کردار ثابت ہوا-

31 مئی 2021 شہادت کے دن شہید سارنگ جیسے آج دلہاں بَننے جا رہا تھا، اُس کے خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ میں ” فتح اسکواڈ” کا سپاہی ہوں، اور پہلے میں ہی دشمن پر کڑکتی ہوئی بجلی کی طرح ٹوٹ پڑونگا، اُس دن شہید سارنگ پورا دن بے چینی سے انتظار میں تھا کہ کب میں قابض دشمن کے نزدیک پہنچ کر اُسے اپنے وطن سے نکل جانے کو للکاروں گا-

شام 6 بج کر 36 منٹ پر جب جنگ شروع ہوا تو شہید سارنگ بِلا کوئی جھجک کے اپنی جنگی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے جنگی کمانڈ اور شہید لیلا کے ساتھ گیارہویں منٹ پر دشمن فوج کے دو مورچوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو چُکا تھا اور دشمن کے ساتھ دُو بدُو لڑائی میں مصروف تھا، اور دشمن کو ہَکل یعنی للکار رہا تھا کہ بندوق پھینک کر نکل جاؤ، اپنے قدم آگے بڑھاتے ہوئے شہید سارنگ بارش کے تیز بوندوں کے مانند دشمن پر گولی برسائے جا رہا تھا کہ بزدل دشمن کے ایک فوجی نے پیچھے سے شہید سارنگ پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں شہید سارنگ کو کندھے پر گولی لگنے سے وہ گِر پڑا، یہ دردناک لمحہ دیکھ کر شہید سارنگ کے جنگی کمانڈ نے مکمل حوصلے کے ساتھ بغیر وقت ضائع کیے تیسرے ہی سیکنڈ پر اُس دشمن فوجی کے سینے اور سر پر تین گولیاں پیوست کردیئے جس کے نتیجے میں شہید سارنگ کو شہید کرنے والے دشمن فوج کا اہلکار وہیں پر ڈھیر ہوگیا اور باقی دو ساتھی سرمچار شہید سارنگ کو سنبھالتے ہوئے واپس لے جانے لگے اور باقی ساتھی سرمچار اپنا ہدف پورا کرنے میں مصروف ہوگئے – ایک دوست نے مخابرے میں آواز دی کہ شہید سارنگ اب ہم میں نہیں رہے وہ اپنے مقصد میں ثابت قدم ہوگئے اور شہداء کے کاروان کا حصہ بن گئے – شہید سارنگ کی شہادت نے ساتھی سرمچاروں کے حوصلوں کو مزید دوام بخشا اور وہ مزید تیزی اور پُھرتی کے ساتھ دشمن فوج پر قہر بَن کر ٹُوٹ پَڑے-

یوں شہید شاویز زہری عُرف سارنگ بلوچ ” فتح اسکواڈ” کا پہلا شہید ہونے کا اعزاز حاصل کرکے تاریخ کے اوراق میں امر ہوگئے اور اپنے حصے کے باقی جہد ہمارے کندھوں پر رکھ کر ” رخصت اف اوارون سنگت” کا پیغام دے کر ہم سے جسمانی طور پر جدا گئے –

لیکن فکری طور پر وہ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ہم اُس کی خوشبو کو محسوس کر رہے ہیں، اور یہ عہد کرتے ہیں کہ آزاد بلوچستان کے قیام تک شہید سارنگ کے فکر و شہادت کے فلسفے پر قائم رہ کر دشمن کو اپنے وطن بلوچستان سے نکال باہر کرینگے-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں