آج بولان نازاں ہے | (دوسرا حصہ) – سلال بلوچ

499

آج بولان نازاں ہے

دوسرا حصہ

تحریر: سلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ساتھ دہائیوں سے آزاد وطن بلوچستان کے قیام میں ہر پیر و ورنا نے بے تحاشہ خون بہایا ہے، اور ہر شہید کا یہی فلسفہ رہا ہے کہ ہم آزاد وطن بلوچستان یا شہادت پر یقین رکھتے ہیں، ہمارا ایمان ہے ہم آزاد ضرور ہونگے، جنرل اسلم و بلوچ جہد کے ہر شہید کے اس مشن کو آگے لے جانے میں شعور سے لیس نوجوان شہید آفتاب جتک عُرف وشین بلوچ نے بھی اپنے آسائش کی زندگی ترک کرکے وطن کی دفاع کے لیے اپنے قابلیت و ہُنر کو دشمن پاکستانی فوج کے خلاف استعمال کرنے بولان کے پہاڑوں کو مسکن بَنا چُکا تھا- شہید وشین اپنی رضامندی سے تین مہینے پہلے بولان میں اپنی جنگی صلاحیتیں اور قومی خدمات کو پورے خلوص و محبت سے ادا کر رہا تھا، اور بہترین زانت کاری کی بنیاد پر شہید وشین کو ” فتح اسکواڈ” کے کاروان میں شامل کیا گیا تھا- تین مہینے کے اس کم وقت میں تنظیمی ڈسپلن کا پابند تنظیمی ترقی کے لیے دن رات کوشاں رہنے والے شہید وشین نے بہترین کارکردگی نبھائی، اُن کے پُر خُلوص انداز میں کام کرنے اور دوسرے ساتھی سرمچاروں کی تربیت کرنے سے اُس کی مضبوط فکر اور وطن سے بے انتہا عشق چَھلک رہی تھی۔

شہید وشین ، شہید امتیاز جان عُرف دلوش کا پیروکار تھا، اپنی ذات کو شہید دلوش کے کردار و عظیم فلسفے سے جوڑ چُکا تھا-

بولان مارواڑ میں دشمن کے ساتھ دُو بدُو لڑائی میں شہید وشین اپنے جنگی کمانڈ کے ساتھ خاردار تاروں کو پھلانگ کر دشمن فوج کے چیک پوسٹ کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا، جنگ شروع ہونے کے بعد پندرہویں منٹ پر شہید وشین نے دشمن فوج کے دو مورچوں پر رسائی حاصل کرلی، جہاں شہید سارنگ شہید ہوچکا تھا، شہید سارنگ کے بہتے ہوئے خُون نے شہید وشین کے حوصلوں کو مزید توانائی بَخشی اور شہید وشین دشمن فوج پر مزید پُھرتی کے ساتھ قہر بن کر ٹُوٹ رہا تھا، اور پے در پے گرنیڈ لانچر کے گولے دوسرے مورچوں پر فائر کر رہا تھا، اِسی اثناء میں شہید وشین و شہید لیلا دوسرے ساتھی سرمچاروں کی مدد و کُمک سے دشمن فوج کے چار مورچوں پر قبضہ جما کر پوسٹ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے- جہاں شہید لیلا و شہید وشین نے بہترین جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرکے باقی مورچوں پر قبضہ جما رہے تھے، پوسٹ کا اَسّی فیصد حصہ بلوچ سرمچاروں کے قبضے میں تھا اور باقی تمام ساتھی پوسٹ کے اندر فوجی ساز و سامان قبضے میں لینے کے بعد نکال رہے تھے- شہید وشین بیس منٹ لگاتار جنگ کرتا رہا اور دشمن فوج کے کئی اہلکار ہلاک کیے –

شہید وشین آخری مورچے پر قبضہ جمانے جب مورچے پر پہنچ گیا تو دشمن فوج کا ایک اہلکار مکمل مورچہ زن تھا، شہید وشین نے فوجی اہلکار کو بندوق پھینکنے کی آواز دی اور اندر داخل ہوگیا جہاں آمنے سامنے مقابلے میں شہید وشین کو دو گولیاں لگی جس کے نتیجے میں شہید وشین گِر گئے، اور دوبارہ فوجی اہلکار پر فائرنگ کرکے خود کو محفوظ جگہے پر نکال کر پھر سے مورچہ بند ہوا، یہاں شہید وشین کا کافی خون بہہ چکا تھا، اور دوستوں کو آواز دے رہا تھا کہ اس مورچے میں دشمن فوج کے باقی اہلکار موجود ہیں کلئیر کرنے کے بغیر آگے مَت آنا-

اِسی دوران دو منٹ گزرنے کے بعد شہید وشین کے باقی ساتھیوں نے جنگی کمانڈر کو کَوَر دیا اور شہید وشین کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے- شہید وشین کے آخری وہ الفاظ ” ماما کنکے اچ پریشان مفیرے” ماما میرے لیے پریشان نہیں ہونا-

شہید وشین کو دو ساتھی سرمچار واپس لے جانے لگے اور باقی سنگت دشمن کے باقی مورچوں کو کلئیر کرنے لگے، دس منٹ بعد مخابرے پر اطلاع مِلی کہ شہید وشین بھی شہید سارنگ و قوم کے ہر شہید کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا کرکے ہم میں نہیں رہے- یوں شہید وشین کو “فتح اسکواڈ” کا دوسرا شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور وطن کے دفاع میں اپنا جرت مندی و دلیری سے کلیدی کردار ادا کرکے تاریخ کے پَنوں میں ایک سنہرا باب ثابت ہوا-

بلوچ قومی آزادی کے جہد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہر قبیلے نے قربانی کی مثالیں قائم کی ہیں اور دشمن کو شکست دلانے کے لیے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے- کاہان اور مری قبائل مزاحمت کی علامت رہی ہے اور وہیں سے جنم لینے والا شہید لیلا اپنا فرض نبھانے اور شہید بالاچ خان کے فلسفے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے بولان کے خوبصورتی کو مزید زیبائش بخشنے کے لیے خود کو حاضر کر چُکا تھا- خاموش مزاج، بہترین ذانت کاری، خُلوص اور دیش سے عشق نے اُنہیں ” فتح اسکواڈ” میں شامل ہونے کا اعزاز بخشا- بولان مارواڑ لڑائی میں گیارہویں منٹ میں دو مورچوں پر قبضہ حاصل کرکے دشمن فوج کے پوسٹ کے اندر داخل ہوا تھا اور بہترین جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرکے قبضہ شدہ فوجی ساز و سامان نکال رہا تھا اور دوسرے ساتھی سرمچار ساتھیوں کی کُمک سے باقی مورچوں پر قبضہ کر رہا تھا، اِسی اثناء میں دشمن کے چُھپے ہوئے ایک اہلکار نے شہید لیلا پر فائر کھول دی جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے، اور مخابرے میں آواز لگائی کہ میں زخمی ہوا ہوں مجھے سنگت سنبھال لیں، مکمّل چیک پوسٹ پر قبضہ کرنے اور آگ لگانے دینے کے بعد ساتھی سرمچاروں نے شہید لیلا کو زخمی حالت میں نکال لیا اور میڈیکل ٹریٹمنٹ دینے لگے، شہید لیلا جان چُکا تھا کہ گولی ایک خطرناک جگے پر لگی ہے جس سے میں بَچ نہیں سکتا، تو کہنے لگے کہ ” سنگت شُما وتارا ڈَُکھی مَکنے” سنگت آپ لوگ خود کو تکلیف نہیں کرو—

دشمن فوج کے چیک پوسٹ پر مکمّل قبضہ کرنے اور فوجی ساز و سامان نکالنے کے بعد ساتھی سرمچاروں نے شہید وشین، شہید سارنگ اور زخمی سنگت لیلا کو نکالنے کا انتظام کیا گیا تاکہ محفوظ جگہ پر لیلا کو بہتر ٹریٹمنٹ دیا جائے اور شہید سَرمچاروں کو سپرد خاک کیا جائے-

رات کے تقریباً ایک بجے تمام ساتھی سرمچار ایک محفوظ ٹھکانے پر پہنچ گئے اور شہید سارنگ و شہید وشین کو بولان کے خوبصورت مناظر میں الوداع کرکے سُپرد گُلزمین کیا گیا، اِسی اثناء میں ایک سنگت نے خبر دی کہ شہید لیلا بھی اب ہم میں نہیں رہے، وہ بھی شہید وشین و سارنگ کے کاروان کا حصہ بَن گئے – – تینوں شہید سَرمچاروں کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سلامی دے کر دفن کیا گیا-

بولان تینوں شہیدوں کی قربانی اور بہادری پر آج رشک کر رہا ہے- بولان اپنا سینہ چوڑا کرکے آج شہیدوں کی لازوال قربانیوں کی داستان کوہِ شاہموز و کوہِ کو بمبور سُنا رہا ہے- تاریخ گواہ ہے کہ شہید بالاچ مری و شہید بابو نوروز خان مزاحمت کی علامت رہی ہے- شہید سارنگ و شہید وشین نے زہری کا تعلق بولان سے مزید مضبوط کردیا، اور ہمیں یہ پیغام دے گئے کہ ہم ایک آزاد انسان ہیں ہماری مرضی کے خلاف کوئی ہمیں غلام نہیں بنا سکتا- آج ہر جہدکار شہدائے مارواڑ بولان کی قدموں کے خاک چُوم کر اُن کے فکر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عہد کر رہا ہے- ہمارا ایمان ہے کہ شہیدوں کا خُون رنگ لائے گا اور دشمن پاکستانی فوج کو ہر قدم پر سارنگ، وشین اور لیلا کی صورت میں ورناؤں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ شکست دشمن کی ہی ہوگی-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔