بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے پریس کلب کے سامنے طالب علم سہیل احمد اور فیصل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف اتوار کے روز ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا –
احتجاجی مظاہرے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، بی این پی مینگل، بی ایس او کے کارکنوں سمیت خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی۔
اس موقع پر مظاہرین سے بلوچ کونسل، بی ایس او کے رہنماؤں سمیت دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے اور آئے روز بلوچ طلباء کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جاتا ہے –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں ہر حکومت نے تسلیاں دیں مگر عملی طور پر خاموش بے بسی و بے حسی کی تصویر بنے رہے، حالیہ گورنمنٹ کے بھی ایسے ہی دعوے تھے مگر یہ دعوے بھی ماضی کی طرح روایتی جھوٹ کے پلندے نکلے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان جہاں جبری گمشدگیاں کئی دہائیوں ںسے جاری ہیں اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کو دن دہاڑے اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے وہاں تعلیم دوست اور کتاب دوست خصوصاً نشانے پہ رہے ہیں یہ صورتحال باعث افسوس ہے کہ طلباء کی ایک کثیر تعداد اس وقت بھی گمنام زندانوں میں مقید ہیں حال ہی میں سہیل احمد اور فیصل بلوچ کی جبری گمشدگی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے-
انہوں نے کہا کہ بلوچ طلباء کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنانا دراصل بلوچ سماج کو اندھیرے میں رکھنے کی ایک سازش ہے خوف و دہشت پیدا کر کے تعلیم اور شعور سے دور رکھنے کی ایک کوشش اور تباہ حال تعلیمی ساخت کا شکار بلوچستان کے طلباء کیلئے ریاستی تعلیمی پالیسی کا ایک عکس ہے-
مقررین نے کہا کہ یہاں جو طلباء عسکریت پسندی کی طرف جاتے ہیں ان کا ذمہ دار ریاست ہے –
مقررین نے کہا کہ پاکستان اپنے بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے اگر لوگوں کو سالوں لاپتہ کرکے اذیت گاہوں میں ڈال کر تشدد کے بعد نیم زندہ حالات میں بازیاب کیا جاتا ہے تو یہ عدالتوں کا تماشہ بند کیا جائے –
یاد رہے کہ سہیل احمد ولد رفیق احمد یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں بیچلرز کے فائنل سمسٹر کے طالب علم جبکہ فیصل بلوچ تربت یونیورسٹی میں بی ایڈ کے طالب علم ہیں جنہیں رواں سال کی 31 مارچ کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے شارگ سے لاپتہ کیا گیا –