اس کے نہ ہونے پر بلیا کا شہر اداس ہے – محمد خان داؤد

122

اس کے نہ ہونے پر بلیا کا شہر اداس ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

میڈیا کے شور میں پہلے وہ آواز دبی جو اپنے مغوی خاوند کو تلاش کر رہی تھی۔اب وہ خبر بھی دب کہ رہ گئی جس خبر میں یہ یہ پر شور خبر تھی کہ صدف چغتائی چھ سالوں سے اپنے خاوند کو تلاشتے تلاشتے خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں۔

حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیائی شور میں یہ خبر ایک آگ بن کر نکلتی اور سوشل میڈیا ئی پلیٹ فارم سے ہو تے ہوئے روائیتی میڈیا پلیٹ فارم کو بھسم کردیتی،پر افسوس ایسا نہ ہوا۔اس کے جانے اور خاموش ہوجانے کی خبریں بھی وہ پوسٹ کر رہے ہیں جو اس کے بہت ہی قریبی حلقے میں تھے وگرنہ کون جانتا ہے کہ بلیا کے شہر میں کون خاموش ہوا؟بلیا کے شہر میں شہباز شریف کی اُڑان کی تو خبر بغیر پروں کے لاہور کے آکاش پر اُڑتی رہی ر وہ خبر اس قبر میں دفن ہو گئی جس قبر میں کل رات صدف چغتائی کو خاموشی سے دفن کر دیا گیا،پر اس کی زندگی کے قریب کے دن اتنے خاموش تو نہ تھے!
وہ تو ایک چیخ میں تبدیل ہو گئی تھی۔وہ ایک سڈ تھی،پڑاڈو تھی،دانھن تھی،پکار تھی نہ ہونے کہ باجود سب کچھ تھی،سب کچھ ہونے کہ باجود کچھ نہ تھی۔اگر چھ سال پہلے اس کے جیون ساتھی مدثر نارو کو شمالی علائقوں کی پہاڑوں سے گم نہ کیا گیا ہوتا تو کون جانتا کہ بلیا کے شہر کی صدف چغتائی کون ہے؟

جب مدثر نارو کا بہت انتظار کرنے کے باجود بھی وہ نہیں لوٹا تو وہ اپنی کمر پر اپنا معصوم بیٹا بٹھائے ان شہراؤں،روڈ رستوں،پریس کلبوں کے دروں اور ان مظاہروں میں نظر آتے جن مظاہروں کا ایک ہی مقصد ہوتا کہ گم شدہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

گم شدگی کی پکار اور گم شدہ لوگوں کی تلاش تو پو رے پاکستان میں رہی،پر صدف اپنے ساتھی کی تلاش میں بلیا کے شہر سے باہر نہ نکل سکی۔ وہ بلیا کے شہر کی ایسی اسیر ہوئی جیسے وہ ملنگ صوفی بلیا کی چوکھٹ کے اسیر ہو تے ہیں جو بلیا کا در چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے۔
وہ بلیا کے شہر کی آخری اسیر تھی۔

وہ چاہتی تھی کہ وہ ان مظاہروں میں بھی شریک ہو جو لاہور سے باہر ہو تے ہیں جن کی بھی وہی پکار ہو تی ہے کہ اسیران محبت کو رہا کرو،پر وہ نہیں جا سکتی تھی کیونکہ اس کے ساتھ مدثر نارو کی ایک نشانی تھی اور وہ نشانی ایسی خاص اور ایسی پیاری تھی کہ وہ اسے کسی اور کے حوالے کر کہ نہیں جا سکتی تھی
اس کا حتجاج بلیا کے شہر میں
اس کے ہاتھوں میں تصویر بلیا کے شہر میں
اس کے کاندھوں پر معصوم بچہ بلیا کے شہر میں
اس کی سب پکا ریں بلیا کے شہر میں
اس کے پیروں کا پورا سفر بلیا کے شہر میں
اس کے پیروں کے نشاں بلیا کے شہر میں
اس کی آنکھیں اشک بار بلیا کے شہر میں
اس کے ہاتھوں میں تھامے پمفلیٹ بلیا کے شہر میں
اس کی ہاتھوں میں مدثر نارو کی تصویر بلیا کے شہر میں
اس کی پر زورآواز بلیا کے شہر میں
ایسی آواز جس آواز کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”ویو وسکا رے میں مور مری
تھی کیڈیون دانھوں ڈیل کرے!“
اس ڈیل کی سب آوازیں بلیا کے شہر میں
اب طویل خاموشی بلیا کے شہر میں
اب اک قبر بلیا کے شہر میں
نہ ہمیں اس کے آنے کی خبر نہ ہمیں اس کے جانے کی خبر
وہ کون تھی؟کیوں تھی؟اور اب کہاں گئی؟

ہمیں کچھ نہیں معلوم کیوں کہ اب روائیتی میڈیا کے غلام بن کر رہ گئے ہیں جو میڈیا ہمیں یہ تو بتاتا ہے کہ وزیر اعظم کے ساتھ سعودی دورے پر ان کے ساتھ خاتون اول بھی ہیں،یہ میڈیا ہمیں یہ تو بتاتا ہے کہ رمضان کی راتوں میں کرکٹ کھیلتے کس کی وڈیو وائرل ہوئی،یہ میڈیا ہمیں یہ تو بتاتا ہے کہ کس نے کس کے پیر چومیں؟پر یہ روائیتی میڈیا ہمیں یہ کبھی نہیں بتائے گا کہ مدثر نارو کون ہے اور صدف چغتائی کون تھیں؟

یہ میڈیا ہمیں دانشوروں کی باتیں تو بتائے گا پر یہ میڈیا ہمیں وہ آنسو ہر گز ہر گز نہیں دکھائے گا جو آنسو صدف چغتائی نے چھ سالوں کے دوراں مدثر نارو کی یاد میں بھائے۔یہ میڈیا ہمیں وہ سب کچھ دکھائے گا اور بتائے گا جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں پر جو ہماری خبریں ہیں جو درد دل کی خبریں ہیں جو ہم جیسوں کی خبریں ہیں جو دکھی دلوں اور روتی آنکھوں کی خبریں ہیں جو رونے اور دل کو جلانے کی خبریں ہیں جن خبروں میں ایسی باتیں ہو تی ہیں کہ معلوم پڑے کہ کون کہاں اور کیسے اجل کو پہنچا یہ میڈیا ہمیں وہ نہیں بتاتا اور ہم ہیں کہ اس روائیتی میڈیا کے غلام ہیں۔

اور سوشل میڈیا خبروں کا کیا بھروسہ؟سوشل میڈیائی خبروں کی زندگی ہی کتنی ہو تی ہے۔کچھ منٹ؟کچھ گھنٹے یہاں کوئی خبر ایک دن رہ ہی نہیں سکتی!
پر صدف چغتائی کی موت کی خبر تو سوشل میڈیا پر ایک دن کیا پر ایک گھنٹہ بھی نہ ٹھہر سکی
اور اب تک ہم جیسے لوگوں تک یہ خبر پہنچی ہی نہیں کہ مدثر نارو کی صدف چغتائی گزر چکی
وہ بھی کیا کرتی۔کوئی پتھر کوئی سنگل میل تو نہیں تھی کہ ٹھہر جا تی رُک جا تی اور کوئی اس پر لکھ جاتا
”لاہور تا امرت سر 50کلو میٹر!“
وہ ایک انسان تھی اور جب دکھ انسان کو گھیرتے ہیں تو طویل زندگی بھی مختصر ہو جا تی ہے
ہم نہیں جان پائے اور ان گرم دنوں میں لاہور میں صدف کی قبر پر پڑے پھول بھی سوکھ رہے ہیں
مدثر نارو نہیں لوٹا اور وہ وہاں چلی گئی جہاں سے کوئی نہیں آتا
اور کوئی نہیں
میں بھی نہیں
تم بھی نہیں
پر بلیا کا شہر اس کے نہ ہونے سے اداس ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں