کتاب: سامراج کی موت | کتاب ریویو: نادیہ بلوچ

962

کتاب: سامراج کی موت

مصنف: فرانز فینن | کتاب ریویو: نادیہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فرانز فینن کی یہ کتاب سامراج کی موت ۱۹۵۴ میں لکھی گئی تھی۔جس وقت یہ کتاب لکھی گئی تھی اس وقت الجزائز میں قومی ٓزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ فرانز فینن اس تحریک ٓزادی کی جد وجہد میں عملی طور پر شریک تھا۔فرانز فینن نے اس کتاب میں فرانس کی الجزائر پر قبضہ کا تجزیہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ الجزائر کی عوام نے اس قبضہ کا کیسے مقابلہ کیا،انہوں نے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ قبضے کے بعد کس طرح فرانس نے الجزائز کی ثقافت ، تاریخ اور زبان کو مسخ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فرانز فینن اس بات کو اپنے گفتگو کا محور بناتا ہے کہ کیسے الجزائز کے لوگوں نے یورپی سامراج فرانس کو شکست سے دوچار کیا۔ الجزائز قوم نے اپنی آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں جس کے بدولت الجزائزقوم نے اپنے سرزمین پر جبری طور پر قابض فرانس کو شکست دیتے ہوئے آزادی حاصل کی،الجزائر ایک ایسی قوم ہے جس نے قابض کے خلاف مسلسل جدوجہد سے یہ ثابت کیا کہ الجزئر کی کوکھ سے ایک زندہ انسان نے جنم لیا ہے جو اپنے فکر و عمل سے بالکل انسان ہے، فرانز فینن کے نزدیک دوستوں سے مراد صرف الجزائری یا افریقی نہیں بلکہ پوری تیسری دنیا کے لوگ تھے، جو کسی نہ کسی طرح یورپ اور امریکہ کے تسلط میں تھے۔

تیسری دنیا سے مراد وہ قومیں ہیں جو ظالم کی حقارت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ان کے مطابق امریکہ نے یورپ کی تسلط اور غلامی سے آزادی تو حاصل کی ہے لیکن آزادی کے بعد وہ خود ایک یورپ بن گیا ہے۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک کو یورپ کی تسلط سے آزاد ہو کر دوبارہ یورپ نہیں بننا چاہیے۔اگر ہمیں ان کی طرح ہی بننا ہے تو بہتر ہے ہم ان کے ساتھ ہی رہیں اور اپنی آزادی کی جنگ چھوڑ دیں۔ بقول فرانز فینن آزادی کے بعد ہمیں صرف یہ نہیں کرنا چاہیے کہ بھورے بالوں کے جگہ سیاہ بال والے آ جائیں اور ہم پر مسلط ہو جائیں۔ بلکہ ہمیں ان کی جگہ نئے اور روشن خیال لوگوں کو لے آئیں تاکہ انقلاب کامیاب ہو جائے۔ روشن خیال اور تیسری دنیا کے لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو نئے خیالات کے حامی ہوں جو پرانے نظام کو تبدیل کرنے کی سوچ اور فکر رکھتے ہوں اور ایک نئے نظام اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی جستجو رکھتے ہوں۔

جب نیا نیا فرانس الجزائر پر قبضہ کرنا شروع کر چکا تھا تو اس وقت الجزائر کے لوگوں کو اس قبضہ کے بارے میں کوئی آگاہی اور علم نہیں تھا اور جب الجزائزکے لوگوں کو معلوم ہو گیا تب بہت دیر ہو چکا تھا۔اس وقت فرانس کی نسلیں الجزائز میں آباد ہو چکی تھیں۔ فرانس کا قبضہ الجزائز پر مضبوط ہو چکا تھا۔لیکن اس کے باوجود الجزائز کے عوام نے اپنے سپاہیوں کا ساتھ دیا اور اپنی آزادی کے لیے اپنی جانیں پیش کیں اوربالآخر فرانس کو الجزائز سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ الجزائز کی قومی آزادی میں لبریشن فرنٹ جو کہ ایک مصلح تنظیم تھی اس نے نمایاں کردار ادا کیا۔اس تنظیم کے جنگی اصول تھے جسے ماننا اور ان پر چلنا سب سپاہیوں کے لیے لازمی تھا۔انہیں تنظیم کی طرف سے ہدایات تھے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے تم دشمن کے آلہ کاروں اور ٹھکانوں کو نشانہ ضرور بناو لیکن اس حقیقت اور اصول کو کبھی فراموش نہ کرنا کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ناجائزذرائع کا استعمال نہیں کرنا۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ناجائزذرائع کا استعمال کرنا آپ کو مزید ظلم اور بربریت کی طرف لے جاتا ہے۔اگر ہم لوگ ہی ظلم کا بازار گرم رکھیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم اپنے نظریے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ تو ہم میں اور سامراج میں کوئی فرق بچ نہیں پائے گا۔

الجزائز کے ایک ڈاکٹر کا واقع پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دشمن کے ایک دستے ۳۰ نے اسلحہ ختم ہونے پر ہتھیار پھینک دیئے۔ مجاہدین نے انہیں زدو کوب کر کے گرفتار کر لیا۔ لیکن الجزایری ڈاکٹر وں نے نہ صرف ان کا علاج کیا بلکہ انہیں دشوار گزار راستوں سے قیدیوں کے کیمپ تک بھی پہنچایا اس سخت اور کھٹن مشن کے دوران بہت مجاہدین شہید بھی ہو ئے جبکہ اس کے بدلے فرانسیسی فوج کے جبر کی مثال ایک سویڈش رپورٹر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کا جانا ایک فوجی کیمپ میں ہوا جہاں انہوں نے ایک سات سالہ بچے کے جسم اور چہرے پر سنگین قسم کے تشدد اور نشانات موجود تھے۔ وہاں کے لوگوں سے جب میں نے دریافت کیا کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا ہے تو انہوں کہا کچھ دن پہلے فرانسیسی فوجیوںنے اس کے والدین کو ان کے سامنے مار دیا اب اسے اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیاتاکہ وہ اس واقعے کو بھول پائیں، صحافی کے مطابق جب انہوں نے اسی بچے سے دریافت کیا کہ جب آپ آزاد ہو جائیں گے تو کیا کریں گے؟ جس پر بچے نے جواب دیا کہ میں آزادہوکر ایک فرانسیسی فوجی کا گلہ کاٹ دوں گا۔

فینن اپنے کتاب میں الجزائز کی قومی آزادی کی جدوجہد میں عورتوں کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

افریکی ممالک کا اگر ہم طائرانہ جائزہ لیں جیسے کہ تیونس ، الجزائر، لیبیا تو ان ممالک میں عورتوں کیلئے پردہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے، اگر ان ممالک میں کوئی غیر ملکی باشندہ آتا ہے تو ان کا لباس ان ممالک میں موجود باشندوں سے مختلف ہوتا ہے۔لباس ہی کی بنیاد پر ملکی اور غیر ملکی لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔تو اسی طرح الجزائز کے خواتین اپنے پردے کی وجہ سے فرانسیسیوں سے مختلف تھے۔اور جہاں تک مردوں کا حوالہ ہے ان کے قدو قامت سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔جب قبضہ گیر سامراج الجزائز میں آیا تو معاشرتی اور روایتی پہچان اس کے راستے کے سب بڑے رکاوٹ تھے۔سب سے پہلے فرانس نے اس تبدیلی کو ختم کرنے کی کوشش کی اور عورتوں کو ان کے پہچان سے دور کرنے کے لیے اس نے الجزائزکے روایتی لباس پردے کے خلاف انھیں بڑھکانا شروع کیا۔ وہ کہتے تھے کے الجزائز کے مردوں نے عورت کو قبضہ کر رکھا ہے۔انہوں نے عورت کو صرف گھر تک محدود کر رکھا ہے۔اس کام میں فرانسیسی عورتوں کو بھی ڈالا گیا وہ جاکر الجزائزی عورتوں کو کہتے تھے تم لوگوں کے مردوں نے تم کو جاہل اور گنوار بنا رکھا ہے۔ ہم عورت کو آزادی دلائیں گے ہم انہیں باہر کی دنیا دکھائیں گے۔جو الجزایری فرانسیسی دفاتر میں کام کرتے تھے انہیں جب پارٹیز میں مدعو کیا جاتا تھا تو انہیں کہا جاتا تھا کہ اپنے عورتوں کو ساتھ لے کر آو¿۔ جو لوگ نہیں لے کر جاتے تھے وہ بعدمیں تنقید کا نشانی بنتے تھے یا تو انھیں ان کی نوکری سے فارغ کر دیا جاتا تھا۔ عورت کی الجزایری پہچان کو ختم کرنا سامراج کا سب سے پہلا چال تھا۔ فرانسیسی سامراج کا خیال تھاکہ ان کے گھریلو مسئلوں میں الجھا کر انہیں آپسی جنگ وجدل میں پھینک دوں گا جس کے بعد میری طرف کوئی انگلی نہیں آٹھائے گی۔ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے اس نے مختلف تعلیمی ادارے اور دوسرے این جی اوز بنائے۔ بہت سارے عورتوں نے عورت آزادی کی اس تحریک جو فرانس چلا رہا تھااس پر لبیک کہا۔لیکن لبریشن فرنٹ جو قوم کی آزادی کے لیے دشمن سے جنگ لڑ رہا تھااس نے عورتوں کو احساس دلایا کہ سامراج کی طرف سے بیان کیے گئے جو آزادی کی سرگرمیاں ہیں یہ اصل میں غلامی کی بدترین شکل ہے۔الجزائزکے عورتوں نے اس بات کا احساس کیا کہ فرانس ہمارا خیرخواہ نہیں ہے فرانس ایک قبضہ گیر ہے تو انہوں نے لبریشن فرنٹ کے ساتھ مل کر الجزائز کی جنگ آزادی میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔ وہ لباس جو فرانس نے الجزایری عورتوں کو دیاتھا انہوں نے اس لباس کو فرانس کے خلاف استعمال کیا۔ جب لبریشن فرنٹ کی کسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے مرد عورتیں ایک ساتھ ہوتے تو عورتوں کے یورپی بیگوںمیں پستول اور گرنیڈ ہوتے تھے کیونکہ اس مغربی لباس میں عورتوں کی تلاشی نہیں ہوتی تھی صرف مردوں کی تلاشی ہوتی تھی۔ انہوں یورپی لباس کو دشمن کے خلاف اپنا ایک ڈھال بنایا۔جب وقت کے ساتھ ساتھ استعمار کو اس بات کا اندازہ ہونے لگا کہ عورتیں مغربی لاس پہن کر اس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں تو الجزایری عورتوں نے واپس اپنے آپ کو پردے میں ڈال دیا تاکہ دشمن لاکھوں پردہ والے عورتوں میں مزاحمت کار عورتوں کو پہچان نہ سکے۔

الجزائز میں ریڈیو کا استعمال:

ہم یہاں دیکھیں گے فرانس نے اس چھوٹے سے آلے جسے دنیا میں ریڈیو کہا جاتا تھا کیسے استعمال کیااور اس کے مدمقابل الجزائزکے عوام نے ریڈیو سے کیسے فایدہ حاصل کیا۔ الجزایر میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے کئی سال گزر چکے تھے بظاہر تو فرانس نے اسے الجزایر کے عوام کے لیے لگایا گیا تھا لیکن اس سے مستفید فرانسیسسی ہو رہے تھے ۔ شروع میں ریڈیو کا استعمال صرف فرانسیسی کیا کرتے تھے تو فرانس نے ریڈیو کو اپنے پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے استعما ل کرنا شروع کیا۔الجزایر میں ریڈیو فرانسیسی وجود کی علامت ہے وہ ملک میں نو آبدیاتی نظام کا نمائندہ ہے جس کا کام ہر وقت تعمیر کے بجاے تخریب کو ہوا دینا ہے۔وہ ریڈیو الجزایر پر فرانس کے جنگی خبریں اور قومی ترانہ چلاتے تھے۔ان جرنیلوں کے نام دہرائے جاتے تھے جنہوں نے ہزاروں نہتے لوگوں کو شہید کیا۔ ریڈیو الجزایر جو فرانسیسی چلاتے تھے اس کی اہمیت بس اتنی سی تھی کہ ایک فرانسیسی دوسرے فرانسیسی سے مخاطب ہے۔انہی چیزوں کی وجہ سے الجزایر کے لوگوں نے ریڈیو پر نشریات سننا بند کر دیا۔ جب الجزایر میں ایک فرانسیسی نے ایک الجزایری باشندے سے کہا کہ تم ریڈیو کیوں نہیں سنتے تو اس نے کہا کہ ہم اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر اسے نہیں سن سکتے کیونکہ یہاں پر ایسی چیزیں نشریات ہوتی ہیں جس کا ہمارے مذہب اور معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔اور ریڈیو سننے میں مغربی باشندوں کے دلوں میں ایک اطمینان ہوتا تھا کیونکہ وہ مشرق میں رہ کر مغربی طرح کے نشریات سن رہے تھے۔انہیں لگ رہا تھا کہ اب یہان ہماری جڑیں مضبوط ہو گئی ہیں۔مختصر یہ کہ ریڈیو الجزایر میں فرانسیسی استعمار کی آواز تھی۔ ایک قوت مزاحمت تھی جو فرانس سے دور الجزایر میں قبضہ کیے ہوئے تھے دوسرا یہ کہ یہ مقامی لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔

الجزایر کے لوگوں نے ریڈیو کا استعمال کیسے شروع کیا؟۱۹۵۲ میں جب تیونس جو کہ فرانس کا ایک کالونی تھا فرانسیسی استعمار پر کاری ضرب لگانا شروع جکیا اور عوام الناس کی ہمدردیاں جیتنے کے لیے قومی نشریات پر بھروسہ کیا تو ہمسایہ ممالک کے اس عمل نے الجزایر کی انقلابی قیادت کو یہ بات سوچنے پر اکسایہ کہ اب ہمارے ہاں بھی قومی نشریات کا آغاز وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔ الجزائز کی جنگ آزادی میں ریڈیو نے مثالی کردار ادا کیامقامی لوگوں کو اصل حقیقت اور مقصد سے آگاہ کیااور مقامی لوگوں کو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ مختلف محاذوں پر ہونے والے کارروائیوں کی معلومات ان تک پہنچ رہے تھے۔پہلے فرانسیسی میڈیا مقامی لوگوں کو جھوٹی خبریں پہنچاتے تھے لیکن الجزائر کی اپنی قومی میڈیا نے اس کے مقابلے اپنافرنٹ بنا لیا اور لوگوں کو حقیقت پر مبنی خبریں پہنچانا شروع کیا۔مقامی ریڈیو کا کمال یہ تھا کہ لوگ جب ان پر قومی نشریات سنتے تھے تو ان میں ایک نئی قسم کا جزبہ پیدا ہوتا تھا۔آزادی زندہ باد اور الجزایر زندباد کے نعرے ان کے زبانوں سے گونج رہے ہوتے تھے۔

دوسرا زریعہ اخبار تھاجس کے ذریعے استعمار اپنے جھوٹی خبریں مقامی لوگوں تک پہنچاتا تھا۔اس طرح استعمار نے جنگ کا نیا راستہ اختیار کیاوہ مقامی شخص کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرتاتو اسے ہر طرح کی اذیت پہنچاتا اور اسے قتل کرنے کے لیے اپنے اخباروں میں جھوٹے افواہیں پھیلاتا کہ وہ باغیوں کی گروہ کے ساتھ ملنے کی کوشش کر رہا تھا جس کی بنا پر اسے مارا گیا۔اس کے برعکس پھر الجزیر کے لوگو ں نے ایک قومی اخبار نکالا جسے الجزایر کے لوگ ہر شہر اور بازار میںبیچتے تھے اور مقامی لوگوں کے لیے اس سے بڑھ کر اور خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی جب وہ خبریں ایک ایسے ذریعے سے سنتے اور پڑھتے تھے جو ان کا اپنا تھا۔جب اس نے دیکھا کہ میڈیا کے حوالے سے مقامی لوگ ان سے آگے نکل گئے اور میڈیا اسے شکست دے رہا ہے تو اس نے میڈیا کو سنسر کرنا شروع کیا اور اس پر پابندیاں لگانے کاآغاز کیا۔مقامی میڈیا نے ایک ایسا اعتماد بحال کیا تھاکہ اس وقت ہر الجزئری کے گھر میں ریڈیو ہوتاتھا۔

الجزایر میں فرانس کے قبضے کے بعد ہم دیکھتے ہیںکہ کس حد تک اہل خانہ کوذہنی صدمہ پہنچااور خاندانی نظام کیسے درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ جدوجہد آزادی میں غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کا حجوم تھا لیکن سب سے زیادہ جو متاثر ہوا وہ شادی شدہ افراد تھے۔ اس دوران ان کے خاندان بکھر گئے۔ انہیں جنگ بھی کرنا تھا اور اپنے خاندان کا بھی خیال کرنا تھا۔ اس کے برعکس نوجوان مجاہد کے لیے اپنی جان قربان کر دینا یا استعمار کو ملک سے باہر پھینک دینا تھا۔انقلابی جدوجہد میں باپ اور بیٹے کا رشتہ کس قدر کا تھا؟ انقلابی شعور کی وجہ سے الجزایر قوم کا ضمیر بیدار ہو چکا تھااس کے شعور میں ایک انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ اس انقلاب کا اثر زیادہ تر باپ کی بجاے بیٹے پر ہوا۔اب والدین کی نصیحتیں بیٹوں پر اثر انداز نہیں ہو رہے تھے کہ ہم آپ کی مرضی کے مطابق شادی کریں،آپ ادھر ادھر مت گھومو،آپ اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہو جاواور اپنے خاندان کو سنبھالویہ سب چیزیں اب ایک الجیرین نوجوان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ اکثر نوجوانوں نے ایک ایسے راستے کا چناوکرکے اس پر گامزن ہوگئے تھے کہ وہاں پر کسی بھی فریاد کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔الجزائز میں والدین نے جب اپنے بچوں کی ایسی کیفیت دیکھتی تو وہ انہتائی پریشان ہو گئے کیونکہ والدین ایک الگ سوچ رکھتے تھے جبکہ نوجوان ایک الگ راستے پر گامزن تھے۔ نوجوانوں کے سامنے معاشرتی اقتدار اجڑرہی تھیں جن پر اس کا خاندانی وقار استوار تھا۔اب بیٹوں کے پاس دوراستے تھے یا تو انقلابی سرگرمیوں کو خیرآباد کہہ دیتے یا پھر اپنے باپ کے سامنے باغیانہ روش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی نصیحتوں سے واضح انکار کر دیتے ۔لیکن الجزائر کے جوانوں نے ایک تیسرے راستہ کا انتخاب کیا یعنی کہ اپنے والدین کو اپنے خیالات و افکار کا گرویدہ بنا دینا۔جب نوجوانوں نے اس طرح کیا تو ان کے والدین شند ہوکر رہ گئے انہوں نے دیکھا کہ یہاں تو فکر و عمل کی دنیا بدل ہوکر رہ گئی ہے۔ جب انہوں نے مزید غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس راہ پر میرا بیٹا اکیلا نہیں بلکہ ایک کاروان ہے جو استعمار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی قوت رکھتا ہے۔جب یہ بیٹا مجاہدین کا حصہ بننے جاتا ہے تو اسے باپ نصیحت کرتا ہے کہ تنظیم میں نظم و ضبط کا خیال رکھنا اور کمانڈر کی طرف سے دیئے گے ہر کا م کو بخوبی سر انجام دینا۔اور اس طرح یہ معاشرہ تبدیل ہو رہا تھا کہ ایک قدامت پسند باپ کو ایک انقلابی بیٹا لیڈ کر رہا تھا۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ الجزائر کی جاری جدوجہد آزادی کے دوران باپ بیٹی کا رشتہ کیسے بدل گیا، الجزایر ایک قدامت پسند مسلمان معاشرہ تھا جس میں عورت کا کردارمحض یہ تھا کہ وہ کتنے اپنے والدین کا فرمادار ہے۔ الجزائز میں عورت معاشرہ سے بالکل قطعہ تعلق تھا۔ عورت جب تک اپنے والدین کے گھر میں رہتا تب تک اسے والدین کا فرمانبردار ہونا چاہیے تھا جب شادی ہو کر وہ سسرال کے ہاں چلا جاتا تو وہاں بھی اس کا یہی کام تھا کہ اب سسرال کا پابند ہو جائے اور گھر کے کام کاج کرے اور کچھ نہ کرے۔ عورت صرف دو سٹیجز سے ہو کر گزرتی تھی۔ ایک بچپن بلوغت اور دوسرا شادی ۔ اس کے سوا عورت کی کوئی زندگی تھی نہ ہی کوئی مقصد۔ لیکن جب لبریشن فرنٹ نے اپنے پالیسیوں میں تبدیلی لائی اور عورت کو اپنے آرمی میں شامل کرنا شروع کیا تو لبریشن فرنٹ کے ٹریننگ سنٹرز میں عورتوں کی قطاریں لگ گئی ۔ وہ عورت جو کبھی گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا آج مرد کے کپڑے پہن کر اپنے والدین کے سامنے ٹریننگ کیمپ چلی جاتی تھی اور وہ عورت جو رات کو گھر سے نکلنے کے لیے ڈرتی تھی وہ دو دو تین تین مہینے پہاڑوں کے غاروں میں رہتی تھی اور واپس آتی تھی۔ وہ عورت جو ہمیشہ اپنے برقے میں رہتی تھی آج یورپی لباس پہن کر اپنے پرس میںگرنیڈ اور پسٹل لے کر گھوم رہی تھی۔وہ معاشرہ جس میں عورت کا گھر سے باہر نکلنا قابل قبول نہ تھا آج اگر اس کے والدین اسے ایک نامحرم کے ساتھ دیکھ لیتے تو کچھ نہ کہتے تھے کیونکہ اسے لبریشن فرنٹ اور ان کے مجاہدین کے اوپر بھروسہ تھا کہ ان کے بیٹیاں گھر سے زیادہ ان کے ساتھ محفوظ ہیں۔ اب عورت مرد پر منحصر نہ رہتا تھا بلکہ اس نے معاسرے میں اپنے لیے نئے راستے کا انتخاب کرکے اپنا ایک الگ اور منفرد مقام پیدا کیا تھا۔المختصر عورت نے معاشرے کو جمود ،بانجھ پن اور غیراخلاقی اقدار سے نجات دلانے میں اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کیاتھا۔اسی طرح والد کے بعد گھر میں معتبر بڑا بھائی ہوتا ہے اور اس کے رشتے بھی بدل گئے اب وہ محض آرڈر دینے والا نہیں رہا بلکہ اس نے اپنے آپ کو ایک غلام کے طور پر تسلیم اور اس غلامی کے خلاف جو جدوجہد ہو رہی تھی اس کے خلاف نہیں گیا۔

ایک شخص مصطفی کی شادی ایک قدامت پسند لڑکی سے ہو جاتی ہے مصطفی اپنے دیگر زمہ داریوں کے علاوہ ایک روشن خیال آدمی بھی ہے۔اسے اپنے گھر کے نزدیک ایک عقوبت خانے کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جہان فرانسیسی فوجی اس کے ہم وطنوں کو زدوکوب کرتے ہیں۔تو مصطفی ایک رات گرنیڈ اٹھا کر جاکر اس عقوبت خانے پر حملہ کرتا ہے اور واپس آکر اپنے بیوی کے ساتھ سو جاتا ہے اورصبح جب اس کی بیوی ریڈیو الجزایر کی نشریات سنتی ہے اور آکر مصطفی کو آگاہ کرتی ہے۔ جسے سنتی ہی مصطفی خاموش رہتا ہے اس بیچاری کو کیا پتہ کہ وہ جس مجاہدین کے حملے کی روداد سنا رہا ہے اس کا سرغنہ مصطفی خود ہے۔اس کے بعد ان کا ایک ہمسایہ گرفتار ہو جاتا ہے اور اسے عقوبت خانے میں لے کر جاتے ہیںوہ ایک موقع پا کر کچھ تصاویر اپنے گھر والوں کو بھیجتا ہے جسے دیکھ کر گھر والوں اور مصطفی کی بیوی کے دلیوں پر قیامت بیت جاتی ہے۔ مصطفی کا بیوی مصطفی کو تعنہ دیتی ہے کہ تم بزدل ہو تمھارے بھائی دشمن کے عقوبت خانوں میں قید ہیں اور تم کچھ نہیں کرتے ہو تم اپنے دنیاوی خوشیوں میں پڑے ہو۔ لیکن ایک قدامت پسند معاشرے میں عورت کا مرد کو تعنہ دینا زہر قاتل ہے، لیکن الجزائر میں قومی تحریک اور جدوجہد نے الجزائر کے تمام پرانے اور پرسودہ روایات کو خاک میں ملایا تھا جبکہ جنگ کے جزبے نے عوام کو ایسے شعوریافتہ کیا تھا کہ اگر کسی کو خاندانی روایت کے مطابق اپنی لڑکی کیلئے کسی شخص کو قبول کرنا ہوتا تو وہ ایسے شخص کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے جو لبریشن فرنٹ کا ممبر نہ ہویا کہ اس نے کسی گوریلہ کیمپ میں کمانڈو کی تربیت حاصل نہ کی ہو۔عورت نے اس جزبے کی بنیاد پر اپنے خاوند میں جزبہ الوطنی پیدا کی۔ تب جاکر ہر الجزایری مرد کے پاس چاہے وہ لبریشن فرنٹ کا ممبر ہو یا نہ ہو اس کے پاس پسٹل ہوتا تھا تاکہ وہ دشمن سے نبرد آزما ہو سکے۔ الجزایر منتشر ہو کر رہ گیا تھا ۔ دو سالوں میں ہزاروں لوگ عقوبت خانوں میں جا چکے تھے۔ عورتیں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی تھیں ۔ وہ اپنے شوہروں کو ڈھونڈنے کیلئے عقوبت خانوں میں جایا کرتے تھے جبکہ دشمن کی طرف سے اکثر پتہ نہیں بتایا جاتا یا پھر انہیں ملنے نہیں دیا جاتا ۔ شہر دشمن فوج کی بمباری سے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے تھے ہزاروں لوگ نکل مکانی کر کے تیونس چلے گئے۔ دنیا میں فرانس کے خلاف احتجاج ہو رہے تھے اور فرانس نے ٹھان لیا تھا کہ مجاہدیں کا خاتمہ کر کےءالجزایر پر مکمل قبضہ جما سکے اور دوسری طرف الجزائز کے باسیوں نے عہد کیا تھا کہ الجزائر سے استعمار کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں گے۔

سامراجی قبضہ گیر فرانس نے نہ صرف دیگر معاملات میں بلکہ ظالم سامراج نے الجزائر میں ادویات کے معاملات میں بھی بہت منافقانہ رویہ اپنایا جس سے قبضہ کی انتہا کا اندازہ لگانا ممکن نہیں، اس جابرانہ رویہ کو دیکھ کر الجزائر کے عام عوام نے استعمار نواز ڈاکٹروں کے پاس جانے سے انکار کر دیا کیونکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا کہ استعمار نواز ڈاکٹروں کے پاس جانے سے وہ اپنی خود کی تذلیل کریں گے کیونکہ وہ مقامی افراد کے ساتھ غیر انسانی سلوک اپناتے تھے استعمار نواز ڈاکٹر اعلاج یا آپریشن کے عمل کو اس قدر طویل دیتے تھے کہ عام لوگوں کیلئے وہ ناقابل برداشت ہو جاتا لیکن ان تمام جرائم کے باوجود قبضہ گیر کے من پسند ڈاکٹروں کیلئے یہ کوئی باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک تو مقامی افراد غیر مقامی اور مغربی ڈاکٹر کے پاس جانے سے کتراتے بھی تھے کیونکہ ایک تو ان کے روایت کے خلاف ہے کہ مغربی ڈاکٹر بخار کے لیے سٹیتھوسکوپک کا استعمال کرتا ہے اورادوسرااگر وہ اس کے پاس جائے بھی تو ڈاکٹر ان پر چیخ پڑتے تھے کہ انہوں نے حکیم کے دوائی کیوں لیے ہیں ؟ مغربی ڈاکٹر مقامی لوگوں کو کہتے تھے کہ آپ لوگ وحشی ہو، آپ لوگوں کے لیے جانوروں کے ڈاکٹر لے آنے پڑیں گے۔ قابض کے مقامی لوگوں کے ساتھ اس رویہ کو دیکھ کر لبریشن فرنٹ نے اپنا ایک الگ میڈیکل ادارے کا قیام عمل میں لایا۔اس ادارے میں تمام ڈاکٹرز مقامی تھے جو بیمار لوگوں کی علاج کرتے تھے نا کہ انہیں ڈانٹے اور ان کے خلاف غلط زبان استعال کرتے تھے۔ایک فرانسیسی ڈاکٹر تھا جو صرف فرانسیسی لوگوں کا علاج کرتا تھا ایک طرف مقامی ڈاکٹر جو مقامی ،فرانسیسی ،انگریز اور جرمن سب کا علاج کرتے تھے۔تحریک آزادی میں غیر ملکی ڈاکٹروں نے استعمار کا ساتھ دیا۔ ان کو عام لوگوں کا مسیحا بنا تھا لیکن انہیں نے حاکم کے آلہ کار کے طور پر اپنی زمہ داریوںکو سرانجام دیا۔۔ الجزایر میں ڈاکٹر مقامی لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن میں دلچسپی لیتے تھے ۔ کیونکہ ان کے مطابق مجھے جاہلوں کے علاج کرنے کا کوئی شوق نہیں اور نہ ہی میں ان مریضوں کے آمدن کا بھوک ہوںاس لیے چند ٹکوں کی خاطر میں یہاں مسلسل نہیں بیٹھ سکتا اور وہ اپنے آسائش حاصل کرنے کے لیے استعمار کا حصہ بن جاتا ہے۔لبریشن فرنٹ نے جنگ کے دوران ایسے ریاستی آلہ کار کئی ڈاکٹرز مار دیئے۔ وہ باقاعدہ جاسوسی کا کام کرتے تھے جو بھی مقامی مریض ان کے پاس علاج کے غرض سے جاتے وہ ان تمام ڈیٹا کو اکھٹا کرکے فرانسیسی فوجیوں کے حوالے کرتے تھے۔ جبکہ کچھ اپنی مسرت کی خاطر فوجی آپریشنوں میں حصہ لیتے تھے،اسے لیے جہادیوں کے نزدیک آزادی کے اس جنگ میں مارا جانے والا ہر ڈاکٹر جنگی مجرم ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں