شور پارود کا دمکتا سینہ – بیبرگ بلوچ

449

شور پارود کا دمکتا سینہ

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“ہم گھیرے میں ہیں سنگت اٹھ جایئے” یہ آواز کیمپ میں گونجنے لگی۔سارے سنگت اطمینان سے مگر بجلی کی سی تیزی سے دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے تیار ہوگئے، میری دھرتی کے عشاق ویسے بھی ہر لمحہ دشمن پر مانند برق گرنے کو تیار ہیں، بقول شہید سنگت ثناء بلوچ
” دشمن جب سبی آتا ہے تو گرمی سے مرجاتا ہے دشت آتا ہے تو سردی اسے ماردیتا ہے اگر میرے دھرتی کا موسم دشمن کو برداشت نہیں کرسکتا تو میں کیسے دشمن کو برداشت کروں۔”

دوسری طرف دشمن پہ مصیبت یہ آن پڑی کہ یہ نہ سبی ہے اور نہ دشت بلکہ “شور” جیسا وادی جو جبڑوں کو الگ اور پسلیوں کو آپس میں ملانے کی قوت رکھتا ہے۔”شور” ایک طرف اپنے سپوتوں کیلئے بانہیں پھیلائے ہوئے ہے، تو دوسری طرف دشمن کو کچلنے کیلئے بھی بیقرار ہے۔شور کا پہاڑ ان شہیدوں کے لہو سے سیراب ہے جن کی دوستی پر ماران ، باتیل چلتن فخر کرتے تھے۔ شاشان انکی دوستی کا فخر برتا تھا ، غرض وہ مٹی کو جانتے تھے ،محبت کو جانتے تھے ،جنگ کو جانتے تھے، جنگ اور محبت کے تعلق کا پیمانہ تھا۔جس نے جنگ اور محبت کا تعلق نہیں دیکھا وہ شور کا نظارہ کرے “شُور” اسے یقین دلائے گا کہ محبت کی حقیقت جنگ میں پوشیدہ ہے۔

غرض آفتاب کی تمازت چار سو روشنی پھیلا رہی تھی۔ دشمن کے آمد کا سنتے ہی دوست اپنے اپنے کمان سنبھالنے لگے۔ دشمن کے تین سے چار ہیلی کاپٹر جن میں ایس ایس جی کمانڈوز کی اکثریت تھی، کئی پیدل فوج “سمسوک” کے نشیب و فراز میں داخل ہوچکے تھے۔تنظیمی اصولوں کے مطابق چند سنگت دشمن کا مقابلہ کررہے تھے اور چند سنگت دوسرے ساتھیوں کو کیمپ سے نکال کر محفوظ مقام تک پہنچارہے تھے، دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے پھلین امیر عرف جمال، صمد زہری عرف شیرا اور گزین عرف شاہجہان کمر بستہ ہوئے۔

پھلین امیر جیسا پُرجوزہ سنگت ، شیرا جیسا تُند خو پُرہمت اور گزین جیسا پُختہ فکر دشمن کے سینکڑوں فوجیوں کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے کافی تھے۔ تینوں سنگتوں نے جلدی جلدی اپنے لیئے عارضی مورچے بنائے دوسری طرف بکھرے بالوں والا نوجواں دلجان “ٹک تیر” کندھے پر لانچر اُٹھائے ہیلی پر نشان تان گئے تھے، نشانے کی رینج کے مطابق گولہ فائر ہوا دلجان کا نشانہ ہیلی کے کنارے لگ کر پھسل گیا، مگر ہیلی گولے کی تاب نہ لاتے ہوئے لڑکھڑانے لگی بالاخر لینڈنگ کی کوشش میں قلات مین آرسی ڈی روڈ پر گر کر تباہ ہوگئی۔ جسے دشمن نے فنی خرابی کا نام دیا۔

زہری تراسانی کی مٹی کا عظیم فرزند شیرا ،انجیرہ کا انجیر گزین اور پھلین امیر جان دشمن سے دوبدو لڑائی میں مصروف تھے۔ شیرا اور گزین کمزور مورچوں میں تھے جس کی وجہ سے وہ کچھ ہی گھنٹے میں شہید ہوئے جب کہ امیر قدرے مضبوط مورچے میں تھا تو دشمن اسے نقصان پہنچانے میں ناکام رہا لیکن ایک طرف سے دوست نکل گئے تھے دوسری طرف امیر کی رائفل کے گولیاں ختم ہوچکے تھے۔ایک کارتوس جسے وہ ہمیشہ سامنے کی جیب میں رکھتے تھے دشمن کے ہاتھوں لگنے سے بہتر امیر نے آخری گولی کا فلسفہ اپنایا اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔دشمن کے ہاتھ کچھ نہ آیا مگر شیرا ، گزین اور امیر کے لہو نے “شُور” کو توانائی بخشی،حوصلہ بخشا۔

وہ دن اور آج کا دن جب بھی شیرا ،گزین اور امیر کی یاد آتی ہے تو ایک پُرمسرت لہر سینے میں دوڑتی ہے۔وطن کے آزادی کا ایمان پُختہ ہوجاتا ہے۔خوف کے کچلنے کے عزائم دوبالا ہوجاتے ہیں۔”شور” کی وادی اب بھی اپنی بھرپور موسیقیت میں شیرا،گزین اور امیر سمیت ہر اُس بلوچ کا گُن گارہا ہے جو اُسکے دمکتے سینے پر دھرتی کیلئے خون بہا کر امر ہوگئے۔

7 اپریل کے شہدا نے جہاں ایک طرف دشمن کو آگ و خون میں نہلا دیا تو دوسری طرف قوم کیلئے ایک سبق چھوڑ کر گئے۔ وہ سبق امیر کی جانبازی ، شیرا کی بلند ہمتی اور گزین کی پختہ ایمان کی شکل میں آج بھی جگہ جگہ موجود ہے۔انہوں نے ہر محاذ کو دشمن کے خلاف بھرپور انداز میں استمعال کیا ایک نئی نسل تیار کی ، نئے اصول و ضوابط سے آشنا کیا نئے جنگی گُر سکھائے ان سب سے بڑھ کر دھرتی سے محبت کے اظہار کا طریقہ سکھایا جنگ اور محبت کے معیار کا پیمانہ بتا گئے۔محبت اور جنگ کے تعلق کو بتایا، نبھایا اور ہمیں سکھا گئے۔جو آج بھی دشمن کے زنگ آلود نظریات کی بنیادوں کو ہلانے کی سکت رکھتے ہیں۔یہ سبق شیرا، گزین اور امیر کے فلسفہ میں ہی پوشیدہ ہے۔

شور پارود کا دمکتا سینہ
تحریر۔ بیبرگ بلوچ

“ہم گھیرے میں ہیں سنگت اٹھ جایئے” یہ آواز کیمپ میں گونجنے لگی۔سارے سنگت اطمینان سے مگر بجلی کی سی تیزی سے دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے تیار ہوگئے، میری دھرتی کے عشاق ویسے بھی ہر لمحہ دشمن پر مانند برق گرنے کو تیار ہیں، بقول شہید سنگت ثناء بلوچ
” دشمن جب سبی آتا ہے تو گرمی سے مرجاتا ہے دشت آتا ہے تو سردی اسے ماردیتا ہے اگر میرے دھرتی کا موسم دشمن کو برداشت نہیں کرسکتا تو میں کیسے دشمن کو برداشت کروں۔”

دوسری طرف دشمن پہ مصیبت یہ آن پڑی کہ یہ نہ سبی ہے اور نہ دشت بلکہ “شور” جیسا وادی جو جبڑوں کو الگ اور پسلیوں کو آپس میں ملانے کی قوت رکھتا ہے۔”شور” ایک طرف اپنے سپوتوں کیلئے بانہیں پھیلائے ہوئے ہے، تو دوسری طرف دشمن کو کچلنے کیلئے بھی بیقرار ہے۔شور کا پہاڑ ان شہیدوں کے لہو سے سیراب ہے جن کی دوستی پر ماران ، باتیل چلتن فخر کرتے تھے۔ شاشان انکی دوستی کا فخر برتا تھا ، غرض وہ مٹی کو جانتے تھے ،محبت کو جانتے تھے ،جنگ کو جانتے تھے، جنگ اور محبت کے تعلق کا پیمانہ تھا۔جس نے جنگ اور محبت کا تعلق نہیں دیکھا وہ شور کا نظارہ کرے “شُور” اسے یقین دلائے گا کہ محبت کی حقیقت جنگ میں پوشیدہ ہے۔

غرض آفتاب کی تمازت چار سو روشنی پھیلا رہی تھی۔ دشمن کے آمد کا سنتے ہی دوست اپنے اپنے کمان سنبھالنے لگے۔ دشمن کے تین سے چار ہیلی کاپٹر جن میں ایس ایس جی کمانڈوز کی اکثریت تھی، کئی پیدل فوج “سمسوک” کے نشیب و فراز میں داخل ہوچکے تھے۔تنظیمی اصولوں کے مطابق چند سنگت دشمن کا مقابلہ کررہے تھے اور چند سنگت دوسرے ساتھیوں کو کیمپ سے نکال کر محفوظ مقام تک پہنچارہے تھے، دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے پھلین امیر عرف جمال، صمد زہری عرف شیرا اور گزین عرف شاہجہان کمر بستہ ہوئے۔

پھلین امیر جیسا پُرجوزہ سنگت ، شیرا جیسا تُند خو پُرہمت اور گزین جیسا پُختہ فکر دشمن کے سینکڑوں فوجیوں کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے کافی تھے۔ تینوں سنگتوں نے جلدی جلدی اپنے لیئے عارضی مورچے بنائے دوسری طرف بکھرے بالوں والا نوجواں دلجان “ٹک تیر” کندھے پر لانچر اُٹھائے ہیلی پر نشان تان گئے تھے، نشانے کی رینج کے مطابق گولہ فائر ہوا دلجان کا نشانہ ہیلی کے کنارے لگ کر پھسل گیا، مگر ہیلی گولے کی تاب نہ لاتے ہوئے لڑکھڑانے لگی بالاخر لینڈنگ کی کوشش میں قلات مین آرسی ڈی روڈ پر گر کر تباہ ہوگئی۔ جسے دشمن نے فنی خرابی کا نام دیا۔

زہری تراسانی کی مٹی کا عظیم فرزند شیرا ،انجیرہ کا انجیر گزین اور پھلین امیر جان دشمن سے دوبدو لڑائی میں مصروف تھے۔ شیرا اور گزین کمزور مورچوں میں تھے جس کی وجہ سے وہ کچھ ہی گھنٹے میں شہید ہوئے جب کہ امیر قدرے مضبوط مورچے میں تھا تو دشمن اسے نقصان پہنچانے میں ناکام رہا لیکن ایک طرف سے دوست نکل گئے تھے دوسری طرف امیر کی رائفل کے گولیاں ختم ہوچکے تھے۔ایک کارتوس جسے وہ ہمیشہ سامنے کی جیب میں رکھتے تھے دشمن کے ہاتھوں لگنے سے بہتر امیر نے آخری گولی کا فلسفہ اپنایا اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔دشمن کے ہاتھ کچھ نہ آیا مگر شیرا ، گزین اور امیر کے لہو نے “شُور” کو توانائی بخشی،حوصلہ بخشا۔

وہ دن اور آج کا دن جب بھی شیرا ،گزین اور امیر کی یاد آتی ہے تو ایک پُرمسرت لہر سینے میں دوڑتی ہے۔وطن کے آزادی کا ایمان پُختہ ہوجاتا ہے۔خوف کے کچلنے کے عزائم دوبالا ہوجاتے ہیں۔”شور” کی وادی اب بھی اپنی بھرپور موسیقیت میں شیرا،گزین اور امیر سمیت ہر اُس بلوچ کا گُن گارہا ہے جو اُسکے دمکتے سینے پر دھرتی کیلئے خون بہا کر امر ہوگئے۔

7 اپریل کے شہدا نے جہاں ایک طرف دشمن کو آگ و خون میں نہلا دیا تو دوسری طرف قوم کیلئے ایک سبق چھوڑ کر گئے۔ وہ سبق امیر کی جانبازی ، شیرا کی بلند ہمتی اور گزین کی پختہ ایمان کی شکل میں آج بھی جگہ جگہ موجود ہے۔انہوں نے ہر محاذ کو دشمن کے خلاف بھرپور انداز میں استمعال کیا ایک نئی نسل تیار کی ، نئے اصول و ضوابط سے آشنا کیا نئے جنگی گُر سکھائے ان سب سے بڑھ کر دھرتی سے محبت کے اظہار کا طریقہ سکھایا جنگ اور محبت کے معیار کا پیمانہ بتا گئے۔محبت اور جنگ کے تعلق کو بتایا، نبھایا اور ہمیں سکھا گئے۔جو آج بھی دشمن کے زنگ آلود نظریات کی بنیادوں کو ہلانے کی سکت رکھتے ہیں۔یہ سبق شیرا، گزین اور امیر کے فلسفہ میں ہی پوشیدہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔