سرکاری ملازمین کا احتجاج، بلوچستان بھر میں شاہرائیں بند

570

احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے پیر کو بلوچستان بھر میں مرکزی شاہراہوں کو بند کردیا ہے۔ گذشتہ آٹھ روز سے گرینڈ ایمپلائز الائنس (جی ای اے) مطالبات کی منظوری کے لئے بلوچستان حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

احتجاج کرنے والے ملازمین کے رہنما عبدالمالک کاکڑ نے کہا کہ ہماری جدوجہد ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کے لئے ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ملازمین کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے بجائے بے روزگاروں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

گرینڈ ایمپلائز الائنس نے اپنے مطالبات کو قبول کرنے کے لئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے بلوچستان میں پیہہ جام ہڑتال کی کال دی تھی۔ ملازمین نے کوئٹہ کے علاقے ویسٹرن بائی پاس پر بھی رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردی۔

کوئٹہ سمیت حب، لسبیلہ، سونمیانی،قلات،ڈیرہ مراد جمالی،خضدار زیرو پوائنٹ، سبی، مستونگ، نوشکی، کوہلو، قلعہ سیف اللہ، نصیرآباد، خاران، واشک، چاغی سمیت دیگر علاقوں میں شاہرائیں بند کردی گئی ہے جبکہ کئی علاقوں میں شٹرڈاون ہڑتال جاری ہے۔

کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں ملازمین کے احتجاج کا سے سب زیادہ متاثر عام لوگ ہورہے ہیں۔ ایک ٹرک ڈرائیور محمد زمان نے بتایا کہ یہ پاگل پن ہے، کیوں ملازمین عام لوگوں کو سزا دے رہے ہیں۔

سرکاری ملازمین نے کوئٹہ میں ریڈ زون کی طرف جانے والی تمام سڑکیں بھی بند کردی ہیں۔ زون میں گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ شامل ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور حسیب خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہم حکومت اور ملازمین کے رحم و کرم پر ہیں۔

احتجاج کرنے والے ملازمین نے نصیر آباد میں بلوچستان اور سندھ کے ملانے والی مرکزی شاہراہ کو بند کردیا ہے۔ مظاہرین نے قلات کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ بھی بلاک کردی۔ اس احتجاج کے نتیجے میں بلوچستان کی تمام مرکزی شاہراہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی جاسکتی ہیں۔

کچھ سیاسی جماعتوں، تاجروں اور ٹرانسپورٹرز نے بھی پیہہ جام ہڑتال کی حمایت کی ہے۔ گرینڈ الائنس میں بلوچستان سول سکریٹریٹ ایسوسی ایشن، اساتذہ، لیکچرر اور دیگر سرکاری ملازمین شامل ہیں۔ مظاہرین بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا احتجاج تیز کررہے ہیں۔